وہی پارٹی جیتے گی جو مودی اور ٹرمپ جیسی ڈیجیٹل کمپین چلائے گی


جیسے جیسے ہر شخص کے ہاتھ میں سمارٹ فون آتا جا رہا ہے ویسے ویسے الیکشن کا روایتی انداز بدلتا جا رہا ہے۔ روایتی سیاسی مہم میں سب سے پہلے یہ تبدیلی آسٹریلیا میں دیکھنے میں آئی جہاں 1996 سے لے کر 2004 تک جان ہاورڈ کی کمپین ڈیجیٹل بنیاد پر چلائی گئی اور وہ آسٹریلیا کے طویل ترین مدت تک حکمران رہنے والے دوسرے وزیراعظم بنے۔ اس کے بعد یہ طریقہ برطانیہ کے 2005 کے انتخابات میں آزمایا گیا۔ امریکی انتخابات میں براک اوباما پہلے شخص تھے جو ٹیکنالوجی کو کارگر طور پر استعمال کر کے صدر بنے۔ وہ پہلے امریکی صدر تھے جو ٹویٹر استعمال کرتے تھے۔

ہمارے خطے میں عمران خان پہلے شخص تھے جنہوں نے ٹیکنالوجی کی اہمیت کو سمجھا اور انہوں نے سنہ 2013 میں اسے استعمال کر کے ایک صوبے کی حکومت حاصل کی اور ان کی جماعت قومی اسمبلی میں تیسری سب سے بڑی پارٹی بن کر نمودار ہوئی۔

بھارت کے نریندر مودی برصغیر کے پہلے شخص تھے جنہوں نے ٹیکنالوجی کے اس استعمال سے 2014 میں وزارت عظمی حاصل کی اور نہ صرف بی جے پی میں وزارت عظمی کے دوسرے حریفوں کو پیچھے چھوڑا بلکہ حکمران کانگریس پارٹی کو عبرتناک شکست دی۔ اس کے بعد مودی لہر جو چلی ہے تو ابھی تک تھم نہیں پائی۔ اب چار برس بعد جا کر کہیں اس کا زور معمولی سا کم پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔

لیکن ٹیکنالوجی کے استعمال کا سب سے حیرت انگیز مظاہرہ امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ نے کر کے دکھایا۔ ری پبلکن پارٹی کی نامینیشن میں کوئی انہیں سنجیدگی سے نہیں لے رہا تھا۔ وہ پارٹی کے صدارتی امیدوار بن گئے۔ اس کے بعد جب تجربہ کار سیاست دان ہلیری کلنٹن سے ان کا مقابلہ ہوا تو انہوں نے تقریباً تمام تجزیہ کاروں کو غلط ثابت کرتے ہوئے ٹیکنالوجی کے زور پر صدارتی مہم جیت کر دکھا دی۔ اس مہم میں انہوں نے ہلیری کلنٹن سمیت اپنے تمام حریفوں کو بہت بری طرح ڈس کریڈٹ کیا اور ان کے مقابلے میں خود کو امریکی قوم کے واحد مسیحا کے طور پر پیش کیا۔

پاکستان میں اب ووٹروں کی بڑی تعداد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اٹھارہ سے پچاس برس کے ووٹر اپنے ہاتھوں میں سمارٹ فون اٹھائے پھرتے ہیں۔ انہوں نے اپنا وقت سوشل میڈیا پر بھی گزارنا ہے اور وٹس ایپ پر بھی۔ وہ اخبار بھی اسی پر پڑھتے ہیں اور اپنے پسندیدہ نیوز کلپ بھی اس پر دیکھتے ہیں۔ دن کا ایک خاطر خواہ حصہ وہ سمارٹ فون پر گزارتے ہیں۔ نوجوان دنیا بدلنے کے خواہش مند بھی ہوتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ وہ کسی لیڈر کے ساتھ شامل ہو کر ملک میں تبدیلی لائیں اور پاکستان کو ایک خوش حال اور جدید ملک بنائیں۔

عمران خان وہ پہلے پاکستانی لیڈر ہیں جنہوں نے اس چیز کو سمجھا کہ وہ ٹیکنالوجی استعمال کر کے ان نوجوانوں کو اپنی طرف مائل کر سکتے ہیں۔ سنہ 1997 کے انتخابات میں وہ ملک بھر میں سات سیٹوں سے کھڑے ہوئے اور ہر ایک پر ہارے۔ سنہ 2002 میں تحریک انصاف کی اسمبلی میں صرف ایک سیٹ تھی اور وہ تھی میانوالی سے عمران خان کی۔ 2008 میں تحریک انصاف نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ 2013 کے انتخابات میں تحریک انصاف ایک بہت بڑی قوت بن کر ابھری اور اس نے مسلم لیگ ن کے گڑھ پنجاب میں اس کے جڑیں ہلا کر رکھ دیں۔

1997 سے لے کر 2013 تک معاشرے میں فرق یہ تھا کہ اب سوشل میڈیا اور سمارٹ فون استعمال کرنے والے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بطور ووٹر رجسٹر ہو چکی تھی۔ جس وقت پاکستان کی روایتی بڑی پارٹیاں پرانے طریقے سے انتخابی مہم چلا رہی تھیں اس وقت عمران خان ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے ان نوجوانوں کو اور ان کے ذریعے ان کے گھر والوں کو اپنی طرف راغب کر چکے تھے۔ نتیجہ یہ کہ وہ شہری پنجاب میں ایک نمایاں قوت بننے کے ساتھ ساتھ پختونخوا میں اپنی صوبائی حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔

جبکہ دوسری بڑی پارٹیاں اس میدان میں بہت پیچھے ہیں۔ چند ماہ پہلے پیپلز پارٹی کے ایک بڑے لیڈر سے ملاقات ہوئی۔ ان سے پوچھا کہ سوشل میڈیا پر آپ توجہ کیوں نہیں دے رہے ہیں؟ انہوں نے اپنے ساتھ موجود دوسرے بڑے لیڈر سے پوچھا کہ ہاں جی آپ اس سلسلے میں کیا کر رہے ہیں؟ دوسرے بڑے لیڈر نے دائیں بائیں دیکھا اور فرمایا ”کچھ کر تو رہے ہیں“۔ ان دوسرے بڑے لیڈر کے فون پر ہم نے اردو کی بورڈ انسٹال کر کے انہیں ٹویٹ کرنا سکھایا جو وہ فوراً ہی بھول گئے۔

مسلم لیگ ن میں مریم نواز شریف نئی نسل کی پہلی لیڈر ہیں جو ٹیکنالوجی استعمال کر رہی ہیں اور سوشل میڈیا پر ایکٹو ہیں۔ لیکن الیکشن کی حکمت عملی بنانے والی لیڈر شپ ابھی ٹیکنالوجی سے ناآشنا ہے۔ وہ عوام تک رسائی کے لئے ابھی بھی پوسٹر، بینر، ٹی وی انٹرویو اور گلی محلے کی کمپین پر ہی یقین رکھتی ہے۔

اب ترقی یافتہ دنیا کے انتخابی امیدوار ووٹر کے گھر گھر جا کر اس کے دروازے کھٹکھٹانے کی بجائے ووٹر سے رابطے کے جدید طریقے استعمال کرتے ہیں۔ جب آپ اپنے ووٹر کو ہر روز اپنا پیغام بھیج سکتے ہیں، اور ہر دن اسے ایس ایم ایس، وٹس ایپ، ٹویٹر اور فیس بک کے ذریعے اپنا موقف یا تشہیری مواد دکھا سکتے ہیں تو پھر روایتی طریقے سے محض چند سو یا چند ہزار ووٹروں تک کیوں محدود رہا جائے؟

ڈیجیٹل کمپین کے ذریعے سیاسی پارٹی اپنے حق میں ایک لہر پیدا کر سکتی ہے۔ سیاسی پارٹی کے پکے ووٹ تو ہوتے ہیں۔ اس کا اصل معاملہ ان ووٹروں کے ساتھ ہوتا ہے جو کسی پارٹی کے ساتھ وابستگی نہیں رکھتے۔ الیکشن کے موقعے پر جو پارٹی ٹھیک لگے اسے ووٹ دے دیتے ہیں۔ ڈیجیٹل کمپین ان سوئنگ ووٹرز کو اپنے حق میں قائل کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ ان کے مسائل پر بات کی جاتی ہے۔ مختلف چھوٹی چھوٹی ووٹر سیگمنٹس کو اس کے مزاج اور رجحان کے مطابق تحریک دینے والے پیغامات دے کر اپنے ساتھ شامل کیا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے بظاہر احمق دکھنے والا ڈانلڈ ٹرمپ اور مذہبی شدت پسند دکھائی دینے والا مودی بھی ٹیکنالوجی کو سمجھنے کی وجہ سے حکمران بن جاتا ہے۔

ڈیجیٹل کمپین میں اہم چیز یہ ہوتی ہے کہ ووٹر کے رجحانات کی شناخت کی جائے، اس کے مطابق اس کو فوکس کر کے اسے پیغام بھیجے جاتے رہیں، زبان زد عام ہونے والے سلوگن تیار کیے جائیں، مختلف تصاویر اور ویڈیو کی مدد سے ان سلوگن کو وائرل کیا جائے۔ اپنے لیڈر کو ایک بڑا قدآور شخص بنایا جائے اور مخالف پارٹی اور لیڈر کی کمپین کو ایک مذاق بنا کر رکھ دیا جائے۔ یہ سب وہ افراد کر سکتے ہیں جو نہ صرف ووٹر کے دل و دماغ میں ارتعاش پیدا کرنے والے پیغامات تیار کر سکتے ہیں بلکہ ان کو فوکس گروپس تک ڈیلیور کرنے کے فن سے بھی آگاہ ہوتے ہیں۔ جبکہ ہماری سیاسی پارٹیوں کا خیال ہے کہ ڈیجیٹل کمپین یہ ہوتی ہے کہ ایک سوشل میڈیا سیل بنا دیا جائے جس میں چند نوجوان بیٹھ کر دن بھر اپنی پارٹی کی تعریف اور دوسری پارٹی کی برائی کرنے والی پوسٹیں کرتے رہیں۔

دنیا بھر میں ڈیجیٹل کمپین کے ذریعے ووٹرز کو کھینچنے والے کئی ماہرین اپنا نام بنا چکے ہیں لیکن پاکستان میں ابھی تک ڈیجیٹل کمپین کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جو امریکہ، برطانیہ، بھارت اور آسٹریلیا میں دی گئی ہے۔ برطانیہ اور آسٹریلیا میں ایسی کمپین چلانے والے ایک غیر ملکی ادارے کے ایک ماہر سے گفتگو ہوئی تو وہ شدید حیران دکھائی دیے کہ نوجوان ووٹرز کی ایک بہت بڑی تعداد ہونے کے باوجود پاکستانی سیاسی پارٹیاں ڈیجیٹل کمپین کے پروفیشنل مینیجرکو کیوں ہائر نہیں کر رہی ہیں جبکہ پاکستان کی 58 فیصد آبادی کی عمر پندرہ سے چون برس کے درمیان ہے اور کل رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد نو کروڑ ستر لاکھ ہے جن میں سے چار کروڑ چوبیس لاکھ کی عمر 18 سے 35 برس ہے۔ ان کو آسانی سے ڈیجیٹل کمپین کے ذریعے ٹارگیٹ کیا جا سکتا ہے۔

ان انتخابات میں جو جماعتیں اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کی طرف توجہ دیں گی وہ ٹرمپ کارڈ کھیلتی دکھائی دیں گی اور جو سیاسی جماعتیں اور لیڈر ٹیکنالوجی کے ٹرینڈز سے بے خبر ہیں وہ انتخابات میں اس کی سزا پائیں گے کیونکہ نوجوان ووٹر کے الیکشن اب ڈیجیٹل کمپین سے جیتے جاتے ہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar