مستنصر حسین تارڑ سیاسی نہیں مگر محب وطن ہیں


نواز شریف کے مالی معاملات کے بارے میں بہت سے لوگ اسی قسم کی صفائی دے رہے ہیں جیسے نواز شریف کے تمام مالی معاملات یہ سب دیکھ رہے تھے یا نواز شریف اپنے تمام مالی معاملات سے سب کو باخبر رکھتے تھے۔ کسی بھی جگہ پیسہ بھیجنا ہوتا پہلے اپنے تمام سیاسی ساتھیوں اور صحافی دوستوں کو بلاتے اور بتاتے کہ میں اپنا جائز اور حلال کا پیسہ ملک سے باہر بھیج رہا ہوں آپ لوگ باخبر رہیں کل اگر کوئی بات ہو تو آپ میرے گواہ رہنا۔ سب لوگ اس چیز کے گواہ ہیں تو انکار کیسے کر سکتے ہیں۔ اب سب کا یہ اوّلین فرض بن گیا کہ ان باتوں کا دفاع کریں۔ یہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ان باتوں کی بھی صفائی دیتے ہیں جن کو نواز شریف خود مان چکے ہیں۔

میرصاحب نے مستنصرحسین تارڑ صاحب کے کالم کا حوالہ دیا کہ تارڑ صاحب سیاسی کالم نہیں لکھتے انہوں نے سیاسی کالم کیسے لکھ دیا۔ تارڑ صاحب کا کالم پڑھ کر اندازہ ہوا کہ یہ ایک سیاسی کالم نہیں بلکہ ایک محب وطن شخص کی آواز ہے۔ اگر کسی محب وطن کے ملک کو کوئی گالی دے گا تو وہ شخص اس پر دکھ کا اظہار بھی نہ کرے۔ یہی دکھ تارڑ صاحب کے کالم میں نظر آ رہا ہے۔ اگر تارڑ صاحب سیاسی کالم نہیں لکھتے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ سیاست کے بارے میں کچھ جانتے نہیں وہ صحافت کے کئی جغادری سیاسی کالم نگاروں سے کہیں زیادہ بالغ نظر ہیں۔

کاش میر صاحب نے مستنصر صاحب کو پڑھا ہوتا تو ان کے کالم کا عنوان ”غداروں کا نشیمن“ تجویز کرتے وقت یہ سوچ لیتے اس قسم کا عنوان ابن صفی یا نسیم حجازی کے ناولوں کا تو ہو سکتا ہے تارڑ صاحب کا نہیں۔ انہیں دوسرا اعتراض نواز شریف کو ہندوؤں کا بھگوان کہنے پر ہوا۔ اس میں حیرت کی کیا بات ہے۔ نواز شریف نے بلوچستان میں بھارتی مداخلت پر کبھی بیان نہ دیا۔ کلبھوشن یادو کے بارے میں کبھی زبان آلودہ نہ کی۔ ان کے بیان سے فائدہ کس کو ہوا۔ بھارت کو، تو یہ بھگوان کس کے بنے بھارت کے یا ان چند مفاد پرستوں کے جو اس سے مالی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ پھر ایک غلیظ فقرہ لکھتے ہیں کہ تارڑ صاحب سیاست کے کیچڑ میں گوڈے گوڈے دھنسے ہوئے ہیں۔ تو جو صحافی سیاست پر لکھتے ہیں وہ تو پھر مکمل طور پر غلاظت میں بھرے ہیں۔ میرصاحب لکھتے ہیں کہ وزیراعظم نے تردید کی ہے تارڑ صاحب نے اس کے بارے میں نہیں لکھا۔ جب نوازصاحب اس کی تصدیق بار بار کر رہے ہیں تو خاقان عباسی کی تردید چہ معنی۔

اجمل قصاب کے بارے میں میر صاحب کا اپنا نظریہ بھی بھارت کی زبان کا دیا ہوا ہے۔ اجمل قصاب کے خلاف  انڈین انٹیلی جینس بھی کوئی ٹھوس ثبوت نہ دے سکی اور پاکستان کو بھی اس تک رسائی نہ دی اور عجلت میں پھانسی دے دی تاکہ کہیں یہ بھید نہ کھل جائے۔ نواز شریف کے عبدالقادرحسن کیا  بہت سے دوسرے بھی مداح تھے مگر تمام محب وطن ان کے خلاف ہو گئے۔ پھر میرصاحب لکھتے ہیں کہ یہ غداری غداری کا کھیل ختم ہونا چاہیے کہ کسی کو غدار کہا جائے۔ اس حساب سے تو میرقاسم بھی غدّار نہ تھا اس نے کیا غداّری کی بس انگریز فوج کے لیے گیٹ ہی کھولا تھا۔ نواز شریف نے بھی کیا غدّاری کی ہے صرف پاکستان دشمنوں کے لیے گیٹ ہی کھولا ہے۔

نواز شریف نے اپنا بیان دوبارہ پڑھ کر سنایا مگر میرصاحب اسے نہ جانے کون سی عینک لگا کر پڑھ رہے ہیں کہ ان کو یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ ان کی نیت یہ نہ تھی۔ اگر ان کا بیان ایسے ہی تھا جیسا کہ میر صاحب سمجھ رہے ہیں تو اس کے لیے پورے پروٹوکول کے ساتھ وہی بدنام زمانہ صحافی کیوں بلایا گیا۔ جبکہ ہمارے ملک میں میرصاحب جیسے قابل صحافی یہ سب کر سکتے ہے۔

اب یہاں معاملہ یہ ہے کہ چور خود قبول کر رہا ہے کہ میں نے چوری کی ہے مگر اس کے وکیل اسے مجبور کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں کہ وہ کہہ دے کہ یہ سب جھوٹ ہے۔ مگر چور ہے کہ اپنے بیان پر ڈٹا ہوا ہے کہ ہاں میں نے چوری کی ہے۔ مگر سب وکیل کہہ رہے ہیں کہ اس نے چوری نہیں کی کسی نے زبردستی اس سے چوری کروائی ہے۔ مگر چور بضد ہے کہ اس نے چوری خود کی ہے۔ اگر حالات ایسے ہی رہے تو وہ مزید چوریاں کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).