پسماندہ معاشرہ اور طالب علم


 اگر ایک معاشرہ کسی دوسرے معاشرے سے فکری، اقتصادی، معاشرتی اور علمی لحاظ سے پست تر ہو تو یہ معاشرہ پسماندہ کہلاتا ہے۔ وہ کونسی وجوہات ہیں کہ ایک معاشرہ ترقی کے بلند منازل طے کرتا ہے اور اس کے بر خلاف دوسرا معاشرہ پست اور تنگدست ہوتا ہے کسی بھی معاشرے کی پسماندگی کا اندازہ اس کے صیح طریقے سے مطالعہ کی صورت میں ہی ہوسکتا ہے۔ پسماندگی کی سب سے اہم وجہ معاشرے میں انصاف اور شعور کا نہ ہونا ہے جو معاشرے کو بدحالی کی طرف گامزن کرتی ہیں کوئی شخص اچھا یا برا نہیں ہوتا ہے بلکہ نظام اور قانون انسان کو اچھا اور برا بنا دیتا ہے اگر کسی معاشرے میں عوام شعور یافتہ ہو تو اس معاشرے میں انصاف کا بول بالا ہوتا ہے اور وہاں کے عوام خوش حال اور معاشرہ ترقی یافتہ ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنے معاشرہ کا جائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ لوگوں اس حقیقت سے بالکل ناواقف ہیں کہ وہ کس نظام کے تحت اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں اور ان کے حقوق اور ذمہ داریاں کیا ہیں؟ ہم جس معاشرے کا حصہ ہے وہاں نظام اور قانون روایتی ہے جن میں تغیر کو برداشت نہیں کیا جاتا اس لئے معاشرہ پسماندہ اور پستی کی جانب رواں دواں ہے۔

پسماندگی کی ایک اہم وجہ کسی معاشرے میں تعلیم اور آگاہی کا نہ ہونا ہے ایک غیر تعلیم یافتہ معاشرہ پسماندہ سوچ کو جنم دیتا ہے۔ ایک غیر تعلیم یافتہ معاشرے کو وسائل کا استعمال اور مسائل کا حل دونوں معلوم نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے مسائل دن بدن بڑھ جاتے ہیں اور وسائل کم ہوجاتے ہیں۔ جس معاشرے میں وسائل میں قلت اور مسائل میں کثرت ہو وہاں انسانوں کی قیمت کم ہوجاتی ہے۔ ایک اور وجہ کسی معاشرہ میں سہل پسندی، عیش و عشرت پرستی اور آسان زندگی کو محنت، مشقت اور جدلیاتی رجحانات پر فوقیت دینا ہے۔ جہاں پر لوگ کام سے بھاگنا شروع کریں اور بے کار ہونے پر فخر کریں تو ایک ایسے معاشرہ کو پسماندہ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا ہے۔ ایک اور اہم وجہ کہ وہ اپنے کامیاب لوگوں کی محنت مشقت اور زندگیوں کو فراموش کریں۔

وسائل کا برابری سے تقسیم نہ ہونا بھی پسماندگی کی وجوہات میں شامل ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں بجلی، پانی، نوکری امیروں کو ان کے حقوق سے زیادہ ملیں اور غریبوں کو کم تو ایسے معاشرے سے ترقی کی امید رکھنا بیوقوفی ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں مثبت توانائی (positive energy) نہ ہو جہاں لوگ کھانے، پینے، پہننے اور گھومنے پھرنے سے زیادہ سوچ نہ سکیں اور جہاں کسی بڑے مقصد کے لئے کام کرنے کی توانائی ہی نہ ہو وہاں پسماندگی کا ہونا ایک ضروری امر ہے۔

اگر ہم اپنے معاشرے کو اس کسوٹی پر پرکھیں تو پتہ چلے گا کہ وہ تمام خامیاں جو ایک پسماندہ معاشر ے میں موجود ہوتی ہیں وہ ہم میں بدرترین درجہ موجود ہیں۔ ایسے معاشرے کو ترقی پسند یا ترقی یافتہ معاشرہ کہنا خود معاشرے کے ساتھ زیادتی ہے پسماندہ معاشرہ میں لوگوں کے ذہنیت میں قدامت پرستانہ اور رجعت پرستانہ سوچ پائی جاتی ہے یہ وہ سوچ جو لوگوں کو آگے بڑھنے سے روکتی ہیں اسی سوچ کی وجہ سے اپنے معاشرہ میں لڑکیوں کو پڑھانے کی اجازت نہیں دیتے ہیں اور ہر ترقی پسند عمل میں اپنی ٹانگ اڑاتے ہیں گویا اس معاشرہ میں غلامانہ ذہنیت کی وجہ سے وہ اپنے معاشرہ کے فلاح بہبود کے کاموں میں اپنا حصہ ڈالنے کے بجائے الٹا ان کاموں میں رکاوٹ پیدا کرنے کا موجب بنتے ہیں۔ نظام کی پسماندگی اور معاشرے کی بدحالی کو کیسے ترقی کی شاہراہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے یہ سوال بہت ہی اہمیت کا حامل ہے تو تاریخ کا مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہیں کہ کسی بھی معاشرے کو پسماندگی سے نکالنے میں شعور یافتہ طبقے کا کردار نہایت ہی اہم ہوتا ہے ینعی کہ طالب علموں کا کردارکیونکہ  طلبہ ہی وہ طاقت ہے جنہوں نے اپنے قلم اور علم کے ذریعے اپنی طاقت کو دنیامیں منوایا ترقی یافتہ قومیں اور ملک اپنے معاشرے کی ترقی، استحکام اور امن کے قیام کے لئے اپنے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت  کے لئے خاص اقدامات کرتے ہیں کیوں کہ اگر نوجوان درست ڈگر سے ہٹ جائیں تو معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہوجاتا ہے اور ترقی کی رفتار بھی رک جاتی ہے۔

اگر ہم پسماندہ معاشرہ میں طالب علموں کی ذہنیت کو دیکھے تو ان میں تعلیم سے بے رخی جیسی کیفیت پائی جاتی ہیں وہ تعلیم کو صرف ذریعہ معاش ہی سمجھتے ہیں۔ پسماندے معاشروں کے اسکولوں میں تعلیمی نظام بہتر نہ ہونے کی وجہ سے طالب علم تعلیم کی اہمیت کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں اگر ہم پاکستان اور یورپی تعلیمی نظام کا تقابلی جائزہ لیں تو  زمین آسمان کافرق نظر آتا ہے ہمارے حکمران کی ایسے کارگردگی سے آج ہمارہ ایسا حال ہے کہ ہم ڈگری یافتہ توہوجاتے ہیں لیکن شعور ہم سے کوسوں دور ہوجاتی ہیں ہماری تعلیمی نظام کی خامیوں میں ایک نصاب کا بہتر نہیں ہونا ہے تب تک نصاب میں بہتری نہیں آئے گی جب تک ہمارے تعلیمی نظام میں بہتری نہیں آئے گی ہمارے معاشرہ میں طالب علموں کی اکثریت کی ذہانت ان فرسودہ نصاب سے وابستہ ہے جو ترقی کی جانب گامزن ہونے کے   بجائے ہمیں  پستی کی جانب لے جاتی ہیں ہمارے تعلیمی نظام کی خستہ خالی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ تیسری جماعت کے بچے کے پاس ایک بہت بڑی بیگ اور اس میں آٹھ کتابیں ہوتی ہیں اور ان کتابوں کو سمجھنا تو دور وہ ان کتابوں کو پڑھ بھی نہیں سکتا

اگر ہم سائنس کے مضامین کو دیکھیں تو ان کا بھی یہی حال ہے کہ وہی پرانے تھیوریاں اور پرانے نظریے یہاں ہم صرف درجہ بہ درجہ آگے بڑھتے رہتے ہیں لیکن ہماری سوچ وہیں کہ وہیں نصابوں میں اٹکی ہوئی ہیں آج ہمیں وہ تعلیم نہیں مل رہی ہیں جس کے بل بوتے کی بنیاد پر ہم ترقی کی جانب رواں دواں ہوسکتے ہیں آج یہ فرسودہ نظام تعلیم طلبہ پر بوجھ کے مانند ہیں۔ قوموں کی ترقی کا دارومدار تعلیم اور طلبہ کے شعور سے وابسطہ ہیں اگر ہمیں اپنے ملک کو ترقی یافتہ بنانا ہے تو ہمیں نظام تعلیم کو بہتر بنانا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).