لڑکی، شادی اور میاں صاحب کی نااہلی


بخدا میرا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے نہ ہی میں نے کبھی سیاست پر کچھ لکھا ہے لیکن کچھ حالات وواقعات اور میری ذہنی کیفیت میرے دماغ میں ایسی تحریک پیدا کرتے ہیں کہ ان کا اثر میری تحریر میں آجاتا ہے۔ لہذا اس مضمون میں لکھے حالات اور ناموں کو میں نے محض استعارے کے طور پر استعمال کیا ہے کیونکہ بے شک میرا سیاست اور حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن پھر بھی ہمارے معاشرے کے ہر گھر میں ایک میاں صاحب کی حکومت ہے جن کی وجہ سے ہر بیوی شادی کے بعد خاندانی سیاست کا شکار ضرور ہو جاتی ہے۔

شادی سے پہلے ایک لڑکی اپنے دماغ میں ایک حسین زندگی کا خواب اور اپنے شوہر کو ایک مخلص دوست کا گمان لے کر پیا کے آنگن میں قدم رکھتی ہے اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتا کہ اس کی زندگی میں شامل ہونے والے رشتے، حالات واقعات کیا ہوں گے۔ اس کا شوہر کس مزاج کا ہو گا کیونکہ اس گھر کی چاردیواری کی حکومت اور رشتوں میں میاں ہی بیلنس رکھ سکتا ہے اگر تو میاں اپنی بیوی اور دوسرے رشتوں کے درمیان بیلنس رکھتا ہے تو گھر میں ایک خوشگوار زندگی سے دونوں فریق ہی لطف اندوز ہو تے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ یہ میاں صاحب اتنے صاحب کمال ہوں کہ رشتوں میں بیلنس رکھ سکیں۔ بیشتر شوہر اقرباء پروری کا شکار ہوتے ہیں ان کا جھکاؤ بیوی سے سے زیادہ اپنے بہن بھائیوں کی طرف زیادہ ہوتا ہے اور وہ صرف اپنے بہن بھائیوں کے مفاد کی خاطر بیوی کو اپنے معاملات زندگی سے دور رکھنا شروع کر دیتے ہیں۔

اگر بیوی اپنے شعور کی وجہ سے ان کی کسی غلطی کی نشاندہی کرتی ہے تو اس بات پر اسے ہی غلط قرار دے دیا جاتا ہے کیونکہ وہ شوہر ہرگز اسے باشعور اور درست ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتا اگر بیوی کچھ کہنا چاہتی ہے تو اس کے منہ پر انگلی رکھوا کر یا خود چیخ چھاڑ کر اس کی آواز کو دبا دیا جاتا ہے اس بیوی کو تمام عمر اس گھر کی حکومت میں صدر ممنون کی طرح خاموش رہنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے جبکہ بظاہر لوگوں کو یا خود اس کے بہن بھائیوں کو یہ محسوس ہو رہا ہوتا ہے کہ اس گھر میں صرف اس عورت کی بات ہی مانی جاتی ہے۔

وہ عورت کئی بار اپنے شوہر سے اپنے دل کی باتیں کرنا چاہتی ہے، اپنی زندگی، گھر اور بچوں کے مستقبل کے بارے میں بات کرنا چاہتی ہے لیکن اس بیچاری کو کبھی ایسا وقت یا موقع ہی نہیں دیا جاتا کیونکہ وہ میاں صاحب ایسے موقعوں پر اکثر گھر سے باہر ہی بھاگ جاتا ہے تا کہ نہ وہ بیوی کے پاس ٹھرے نہ ہی اس کی کوئی بات سنے۔ ایسے میاں صاحب کے زندگی میں ہوتے ہوئے بھی اس بیوی کو ہمیشہ ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ جیسے زندگی کا یہ سفر وہ تنہا ہی کاٹ رہی ہے کیونکہ جہاں آپ رشتوں کے ہونے کے باوجود وہ رشتے آپ سے جذباتی طور پر نہ جڑے ہوں اور خلوص سے آپ کے دکھ سکھ میں  شامل نہ ہوئے ہوں تو ان کی موجودگی میں بھی زندگی بے معنی لگنے لگتی ہے ایسے میاں اس لئے بیوی سے جذباتی لگاؤ نہیں رکھتے کیونکہ ان کے جذبات اپنے دوسرے عزیزاور پیارے رشتوں کے لئے مختص ہوتے ہیں اس لیے وہ بیوی پر انہیں ضائع نہیں کرنا چاہتے لیکن ایسے لوگ دنیا میں بہت اکیلے رہ جاتے ہیں کیونکہ اللہ نہ کرے کل کوئی ایسا وقت آجائے کہ میاں کو اللہ نہ کرے کوئی محتاجی آجائے تو پھر انہی بیوی بچوں سے امید رکھی جائے گی کہ اب وہ اسے سنبھالیں لیکن میاں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی۔

اس وقت تو وہ میاں اپنے تمام معاملات زندگی اور احساس و جذبوں کو تالا لگا کر چھپا کر کسی الماری میں رکھ دیتا ہے اور چابی بھی اپنی بیوی سے چھپا کر رکھتا ہے جس بیوی سے چابی ہی چھپا دی جائے وہ پھر اپنے لئے اپنے میاں صاحب کے دل پر لگے تالے کیسے کھولے اس میاں کا یہ قصور کیا کم یے کہ اس کی نفرت اور طعنے تشنے سہتے سہتے ایک عورت دماغی طور پر اتنا اپ سیٹ ہو جائے کہ نفسیاتی مریض بن جائے اور اس کا تمام وقت ڈیپریشن میں گزرنے لگ جائے اس نفسیاتی پن میں وہ بیوی اس میاں سے اپنا اصل رشتہ بھی بھول جاتی ہے کیونکہ گزشتہ کئی سالوں سے وہ میاں محض نفرت اور طعنے دینے والے ایک شخص کے روپ میں ہی اس کے سامنے آیا ہے اس لئے وہ رشتہ جو رب نے اس کے ساتھ ایک محبت کا رشتہ جوڑا تھا لیکن اس کے حالات اس عورت کو سب کچھ بھلا دیتے ہیں اسے صرف اس شخص کی نفرت یاد رہتی۔

اس نفرت کے رد عمل کے طور پر بیوی کا دل ایسے میاں صاحب کے خلاف بغاوت پر اتر آتا ہے روح بھی اس رشتے کے خلاف دھرنا دے کر بیٹھ جاتی ہے یہ اور بات ہے کہ اس عورت کے دل کی بغاوت اور روح کے دھرنے سے اس  میاں کی روش پر کوئی اثر نہیں پڑتا لہذا اس عورت کے دل کی عدالت ایک دن ایسے میاں صاحب کو فیصلہ سنا دیتی ہے کہ! ”میاں صاحب میرے دل میں رہنے کے لئے آپ نا اہل ہو ”ایسے میں وہ میاں صاحب بیوی کو یہ کہنے کا متحمل بھی نہیں ہو سکتا کہ ”مجھے اپنے دل سے کیوں نکالا“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).