مہدی حسن اور مسلمانوں کا غصہ اسرائیل پہ ہی کیوں؟


اسرائیل میں واقع امریکی سفارت خانے کی تل ابیب سے یروشلم منتقلی کے دن 60 کے قریب فلسطینوں کی ہلاکت پر ہر امن و انسانیت پسند فرد تکلیف اور تشویش کا شکار ہے، مگر الجزیرہ ٹی وی سے منسلک برطانوی صحافی مہدی حسن جس زور و شور سے مسلم دنیا کے غم و غصہ کی ترجمانی کر رہے ہیں، وہ تعریف و تفکر دونوں کے ہی قابل ہے۔

مہدی حسن ایک کامیاب صحافی ہیں اور مغربی مسلم ملینیلز میں کافی مقبول بھی۔ مہدی حسن کی روح کو تڑپا دینے اور قلب کو گرما دینے والی فصاحت و بلاغت سے میں بھی بہت متاثر ہوں۔ یک طرفہ رائے کو وہ جس مسحور کن مدلل طریقے سے ‘پیش’ کرتے ہیں، اس کی بدولت عام قارئین و ناظرین متبادل رائے یا سوچ کے حامل ہو ہی نہیں سکتے-

یہ ذہین صحافی سوشل میڈیا پر بھی فلسطینیوں پہ ہونے والے اسرائیلی ظلم وجبر کی نشاندہی کرتے رہتے ہیں۔ ایک آرٹیکل میں انہوں نے لکھا کہ لبرل اس معاملےپہ کوئی موقف اختیار کرنے سے کتراتے ہیں اور ان کی انسانیت دوستی صرف ایک دھوکہ ہے۔ واشنگٹن پوسٹ پر ایک ویڈیو میں وہ جوشیلے انداز میں امریکی پالیسی کو ڈی کنسٹرکٹ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسرائیل کا “قبضہ” وہ لفظ ہے جو امریکہ کبھی استعمال نہیں کرتا۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ اسرائیل مہدی کے خطیبانہ غیظ و غضب کا نشانہ بنا۔ یہ برطانوی صحافی فلسطینی اسرائیلی تنازعے اور خصوصا مغرب میں مسلمانوں کے مسائل اجاگر کرنے کے لیے عالمی سطح پر ہر میڈیا پلیٹ فارم کا استعمال اس قدر شوق ذوق سے کرتے ہیں کہ کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ “مسلم صحافت” بھی جرنلزم کی ایک قسم ہے، یا یہ کہ مسلم دنیا کے مسائل اجاگر کرنے کے لیے صحافی کا مسلمان ہونا نہایت ضروری ہے ۔ مہدی حسن اپنے کئی خطبات میں لادین لوگوں کو قرآنی حوالوں سے برا بھی ثابت کر چکے ہیں۔

اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام اور مغرب ان کی Beat ہے اور وہ اسی موضوع پر زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہیں، لیکن تعجب اس بات پر ہے کہ مہدی حسن کی جوشیلی تحریروں اور گرلنگ انٹرویوز اکثر اسلام و مغرب کے مابین تصادم کی بحث کے دیگر کرداروں، جو کہ عالمی ڈراموں کے مرکزی کردار کا کام کرتے رہے ہیں، کو قطعاً نظر انداز کر دیتے ہیں۔

بلاشبہ مہدی ایک ذہین مقرر ہیں اور اپنے نکتہ نظر پہ ‘غیر ضروری اعتراض’ سے پہلے ہی مقابل پہ سوال داغنے میں نہایت مہارت رکھتے ہیں۔ ایڈ ملی بینڈ کی بائیو گرافی لکھنے اور بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے کے باوجود وہ سن دو ہزار بارہ میں سعودی آشیرواد اور قطری فنڈنگ سے چلنے والے براڈکاسٹر الجزیرہ سے وابستہ ہو گئے۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ ان اسلامی ریاستوں میں بائیں بازو کے نظریات کا پرچار کرنے کا انجام کیا ہوسکتا ہے؟

الجزیرہ چینل سے وابستگی کے بعد مہدی حسن شام میں بشارالاسد کی ‘ سفاکی’ پر تو بہت ووکل رہے مگر یمن میں سعودی آپریشن کے نتیجے میں ہونے والی شہری ہلاکتوں پر ان کی توجہ تب تک نہ جا سکی جب تک سعودی عرب اور قطر کے سفارتی تعلقات میں کشیدگی نہیں آئی۔

تلخ حقیقت یہ ہے کہ مہدی حسن جیسے مغربی صحافی جب اسرائیل کے ‘انسانیت سوز مظالم’ کا شور مچاتے ہیں تو مسلم سامعین کو موجودہ دور میں رونما ہونے والی عالمی سیاسی تبدیلیوں کے سیاق و سابق کو سمجھنے کی مہلت دینے کے بجائے تاریخ و حقائق کو توڑ مروڑ کے ‘مسلم بیچارگی ‘ (victimhood)  کو فروغ دیتے ہیں ، جس سے محض مغربی مسلم طبقے کے جذبات بھڑکتے ہیں اور ان میں جارحانہ رویہ پیدا ہوتا ہے۔

مہدی حسن اور الجزیرہ جیسے نیٹ ورک’ اسرائیلی ظلم’ پر تو واویلا کر ہی رہے ہیں لیکن کیا مہدی نے اپنی آڈئینس کو فلسطینیوں کی آزادی کی راہ میں حائل ایران اور سعودی عرب کے مابین عشروں سے جاری پراکسی جنگ سے بھی اتنی ذمہ داری سے آگاہ کیا ہے؟ ٹرمپ کے داماد کے اسرائیلی کاروباری شخصیات سے کاروباری روابط پر تو وہ اکثر طنز کرتے ہیں لیکن اسرائیل کے خلیجی ریاستوں سے اقتصادی تعلقات یا خود سعودی شہزادے محمد بن سلمان کے جیرڈ کشنر سے مراسم پر کوئی اشارہ نہیں کرتے۔

مسلمانوں کے لیے محترم (گو اس احترام کی کوئی وجہ نہیں) ‘خادم حرمین شریفین’ کے بیٹے محمد بن سلمان کی طرف سے ٹرمپ انتظامیہ کے اسرائیل نواز امن معاہدے کی حمایت اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے ساتھ خلیجی ریاستوں کے اتحاد میں حالیہ پیش رفت غالباً مہدی کے نزدیک وہ عوامل ہیں جن کا مسلمانوں کے مقدس مقامات آزاد کرانے کی میڈیا rhetoric سے کوئی تعلق نہیں۔ سعودی شہزادہ محمد بن سلمان تو اسرائیل سے اچھے تعلقات کی خواہش میں یہاں تک کہہ گئے کہ اسرائیلیوں کو اپنا ملک رکھنے کا حق حاصل ہے۔ مہدی حسن شاید ان دنوں چھٹیوں پہ تھے ورنہ وہ رونگٹے کھڑے کر دینے والی کسی جذباتی وڈیو یا پوڈ کاسٹ کے ذریعے مسلم اُمّہ پر یہ سازش ضرور آشکار کرتے۔

سب جانتے ہیں کہ مصر اور اردن اسرائیل کے ساتھ مکمل مفاہمتی تعلقات رکھتے ہیں اور فلسطین کی آزادی تو دور کی بات ان ممالک کے سربراہان غزہ میں پھنسے فلسطینیوں کی ناکہ بندی پر بھی کوئی تبصرہ نہیں کرتے۔ مصری حکومت تو خطے میں اسلامی شدت پسندوں خصوصاً حماس کا اثر روکنے کے لئے اسرائیل کے ساتھ مکمل تعاون کر رہی ہے۔ خود پاکستان جہاں انسانی حقوق کی آزادی پر تو اتفاق نہیں مگر فلسطین کی آزادی کی سیاست سب چمکاتے ہیں۔ یہاں بھی مہدی حسن جیسے گفتار کے ماہر شاید ہی ‘یہودی سازش اور صیہونی عزائم’ کے مارے عوام کو باور کروائیں کہ پاکستانی اور اسرائیلی انٹیلیجنس ادارے مل کر سابق سوویت یونین کے خلاف کام کر چکے ہیں۔

ان حقائق سے مکمل صرف نظر، مسلم رہنما اور میڈیا ماہرین مسئلہ فلسطین کا جو بیانیہ مغرب میں پلنے والی مسلمانوں کی نئی نسل کو فیڈ کر رہے ہیں، وہ کشمیر اور فلسطین کے نام پہ کی جانے والی جہادی ‘برین واشنگ’ سے کچھ مختلف نہیں۔ ‘مسلم بے چارگی’ کے بیانیے پہ پلنے والے مسلم نوجوان امریکہ اور یورپ سے میانمار اور فلسطین کے مسلمانوں کو حق دلانے کا تقاضا تو کرتے ہیں لیکن مسلم ممالک میں ہونے والی مسلم اور غیر مسلم عوام کے حقوق کی پامالی انہیں کسی ‘جہاد’ کی طرف مائل نہیں کرتی۔

صحافی ٹم سٹینلے کا کہنا ہے کہ اگرچہ مہدی حسن ایک دلکش اور با صلاحیت صحافی ہیں تاہم ان کا ‘جنگجو انداز’ اس حقیقت کی پردہ داری کرتا ہے کہ وہ بھی ہم سب کی طرح ایک معمولی رپورٹر ہیں، جنہیں اپنے بل ادا کرنے کی فکر ہوتی ہے۔  انفارمیشن وار کے دور میں فلسطین اسرائیل جیسے تنازعات یا جنگی حالات نے رپورٹروں کے بلوں کی ادائیگی بھی آسان کر دی ہے اور ان کو ‘ ہیرو’ بننے کا بھی مناسب موقع فراہم کیا ہے۔

دریہ ہاشمی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

دریہ ہاشمی

دریہ ہاشمی نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم پائی۔ بعد ازاں بون یونیورسٹی جرمنی سے انٹرنیشنل میڈیا سٹڈیز میں ماسٹرز کیا۔ فری لانس جرنلسٹ کے طور پر کام کرتی ہیں۔

duriya-hashmi has 3 posts and counting.See all posts by duriya-hashmi