آپ کو بھی سچائی سے چڑ ہے تارڑ صاحب؟


مستنصر حسین تارڑ فرماتے ہیں کہ وہ سیاسی کالم لکھنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ تارڑ صاحب نے اپنا یہ پرہیز توڑتے ہوئے نواز شریف کے حالیہ بیان پر کالم تحریر فرما دیا ہے۔ قابل تحریر الفاظ کے دائرے میں میاں صاحب کو جتنا سخت و سست کہا جا سکتا ہے تارڑ صاحب کہہ گئے۔ آگے بڑھنے سے پہلے آئیے ذرا ایک بار پھر وہ بیان پڑھ لیں جس پر تارڑ صاحب اتنے نالاں ہیں۔ ڈان کی ویب سائٹ پر شائع انٹرویو  کے مطابق نواز شریف نے کہا کہ “عسکری تنظیمیں اب تک متحرک ہیں جنہیں غیرریاستی عناصر کہا جاتا ہے، مجھے سمجھائیں کہ کیا ہمیں انہیں اس بات کی اجازت دینی چاہیے کہ سرحد پار جا کر ممبئی میں 150 لوگوں کو قتل کردیں۔یہ عمل ناقابل قبول ہے۔ یہی وجہ ہے جس کی وجہ سے ہمیں مشکلات کا سامنا ہے، یہ بات روسی صدر ولادی میر پیوٹن اور چینی صدر ژی جنگ نے بھی کہی۔”

اب ذرا ایک بنیادی مقدمہ کو حل کر لیجئے۔ تارڑ صاحب کو اعتراض اس بات پر ہے کہ میاں نواز شریف نے جو کہا وہ سچ نہیں یا اس پر شکوہ ہے کہ جو کچھ کہا وہ ہے تو حقیقت لیکن کہا کیوں؟۔ اگر تارڑ صاحب کے خیال میں میاں صاحب نے جو کہا وہ ہے تو سچ لیکن کہنا نہیں چاہئے تھا کیونکہ اس سے پاکستان کو شرمندگی ہو رہی ہے تو تارڑ صاحب کو اپنے موقف پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ اگر تارڑ صاحب تحریک انصاف یا پیپلز پارٹی کے کارکن یا لفافہ تجزیہ کار ہوتے تو ان سے شکوہ نہیں ہوتا لیکن یہاں معاملہ ایک ایسے فکشن نگار کا ہے جو اپنی تحریروں کے آئینہ میں اعلی اخلاقیات کا وکیل نظر آتا ہے۔ یہاں بات ایسے ادیب کی ہے جو آئین جواں مردی حق گوئی و بے باکی کے اصول پر کاربند مانا جاتا ہے۔ اگر ایسا ادیب مطالبہ کرے کہ سچ بات کہنے سے پہلے یہ دیکھا جانا چاہئے کہ یہ حق گوئی ہمیں سوٹ کرتی ہے یا نہیں اور اگر سچ بولنا سوٹ نہ کرے تو خاموش رہا جائے، تو ہم سب کو سوچنا چاہئے کہ ادیب کی کون سی بات مانیں؟۔ مصلحت اندیش حق گوئی اور حالات کے مطابق سچ کو چھپا لینا یہ منافقت کے زمرے میں آتے ہیں۔

اچھا، اب یہ صورت فرض کر لیجئے کہ تارڑ صاحب کے خیال میں میاں صاحب نے جو کہا وہ جھوٹ ہے اور ممبئی میں ہوئے بدترین دہشت گردانہ حملوں میں پاکستانی تنظیموں کا ہاتھ نہیں تھا۔ اس صورت میں تارڑ صاحب کو چند نکات پر توجہ فرمانی چاہئے۔ پہلی بات یہ کہ جب ممبئی حملوں کے دوران عامر اجمل قصاب کو پکڑا گیا تو پاکستان سے بعض حضرات نے یہی کہا کہ قصاب کا تعلق پاکستان سے ہے ہی نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود پاکستانی نیوز چینلوں کے نمائندوں نے پاکستان میں اپنے ذرائع کی مدد سے قصاب کا آبائی گاوں ڈھونڈ نکالا اور وہاں جاکر تصدیق کی کہ قصاب یہیں سے تعلق رکھتا ہے۔ اس امر کے بعد کیا پاکستان سے آنے والے کسی انکار یا ہزار انکاروں کی کوئی حیثیت رہ جاتی ہے؟۔

جماعت الدعوہ جس پر الزام ہے کہ اس نے ممبئی حملوں کو انجام دیا اس کے بارے میں یہ کون سی ڈھکی چھپی بات ہے کہ وہ جہاد کے لئے رقم اکٹھی کرتی ہے اور بعض وجوہات کے سبب اسے حکومتوں کی مدد حاصل رہی ہے۔ اس کے جلسہ کے لئے ٹرینیں چلائی جاتی ہیں۔ رمضان میں مساجد کے اس پاس زکوۃ کے نام پر عسکری تنظیموں کا چندہ جمع کرنا ایسا کون سا خفیہ کام ہے جس کو دنیا دیکھتی ہے لیکن تارڑ صاحب توجہ نہیں فرماتے؟۔ پاکستان کی یہ عسکری تنظیمیں بنام جہاد جو کچھ کر رہی ہیں انہیں دنیا کس نظر سے دیکھے گی؟۔ میاں صاحب نے جو کچھ کہا ہے کیا وہی بات اس سے پہلے بار بار نہیں کہی جاتی رہی؟۔ اگر بھول رہے ہوں تو میں یاد دلا دوں کہ اکتوبر 2016 میں سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن نے کہا کہ “پاکستان آج بین الاقوامی سطح پر تنہائی کا شکار ہے کیونکہ یہاں غیر ریاستی عناصر آزاد پھرتے ہیں۔” اب ذرا میاں صاحب کے بیان سے اعتزاز احسن کا بیان ملا لیجئے اور بتائیے کہ اس میں نیا کیا ہے؟۔ اتنا ہی نہیں اکتوبر 2016 میں ہی پاکستانی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ کے اجلاس میں مسلم لیگ کے رانا محمد افضل نے حافظ سعید کا نام لے کر کہا کہ “حافظ سعید کونسے سے انڈے دیتا ہے کہ جس وجہ سے ہم نے اسے پال رکھا ہے۔ ملک کی خارجہ پالیسی کا یہ حال ہے کہ ہم آج تک حافظ سعید کو ختم نہیں کرسکے۔”

اکتوبر 2016 میں ہی ڈان کی وہ خصوصی رپورٹ یاد کر لیجئے جس کے مطابق حکومت نے فوج اور آئی ایس آئی پر زور دیا تھا کہ ملک میں سرگرم عسکری تنظیموں پر لگام لگائی جائے۔ اس میٹنگ میں باقاعدہ کہا گیا تھا جب کبھی سول انتظامیہ کسی عسکری تنظیم پر کارروائی کرتی ہے فوجی اسٹیبلشمنٹ ان تنظیموں کی امداد کو آ پہنچتی ہے۔ تعجب ہے کہ اتنی نظیروں کے باجود اب بھی نواز شریف کا بیان پر تارڑ صاحب جیسے بزرگ حیران اور رنجور نظر آ رہے ہیں۔

میں تو امید کر رہا تھا کہ تارڑ صاحب جیسے دانشور نواز شریف کے بیان کی حساسیت کو سمجھیں گے اور اس پر غور و فکر کی دعوت دیں گے لیکن تعجب ہے کہ انہوں نے اس بیان کو میاں صاحب کی معزولی سے جوڑ کر چٹکیوں میں اڑا دیا۔ چلئے بھارت اور امریکہ کے بارے میں تو مان لیجئے کہ وہ پاکستان سے بیر رکھتے ہیں اس لئے الزام دھر رہے ہیں لیکن میاں صاحب کے بیان میں چین کا بھی ذکر ہے۔ چین تو پاکستان کا قریبی ہے اگر وہ بھی پاکستان میں عسکری تنظیموں کے پھلنے پھولنے کا معاملہ اٹھا رہا ہے تو کیا اسے بھی دشمن کی پرزہ سرائی کہہ کر مسترد کر دیا جائے گا؟۔

تارڑ صاحب کو حق ہے کہ وہ میاں صاحب کے بیان کو ہزیان قرار دے کر مسترد کر دیں لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ اس سے پاکستان پر پڑنے والے دباو کا مداوا نہیں ہو سکتا۔ عسکری تنظیمیں جب تک پاکستان کی دھرتی سے سرگرم رہیں گی تب تک بھارت اور افغانستان ہی نہیں روس اور چین بھی شکوہ کرتے رہیں گے۔ حقیقت سے آنکھیں چرا لینا صورتحال کو بدل نہیں سکتا۔ تارڑ صاحب نے فرمایا تھا کہ وہ سیاسی کالم نہیں لکھتے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ میاں صاحب کے بیان پر ایسی جذباتی تحریر لکھنے سے خود کو روک لیتے تو میرے جیسے ان کے بہت سے قارئین کے دل میں تارڑ صاحب کی حق گوئی و بےباکی کا شیشہ بال آنے سے بچا رہتا۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter