پنگے باز سجنا


پنگا لینے کی سیاست میں میاں صاحب کا کوئی ‎ثانی نہیں۔ ان کے لئے پنگا لینا کسی مشغلے سے کم نہیں۔ پنگا لینے کا عظیم الشان مظاہرہ آپ میاں صاحب کا کمانڈو جرنیل کے ساتھ اپنی آنکھوں سے بخوبی دیکھ چکے ہیں، جس کے اثرات یقینا ابھی تک پڑ رہے ہیں۔ آپ شاید تیراندازی کے مشغلے سے شغف رکھتے ہوں گے اورتیر چلانا آپ کو پسند ہوگا۔ یا آپ غالبا بلے بازی کے شوقین ہیں۔ اور یقینا آپ کو بلے سے زوردار چھکے لگانا پسند ہوگا۔ آپ کو یہ مشاغل پسند کرنے کا حق ہے۔ لیکن اگر آپ کو پنگا لینے کے مشغلے کے داؤ پیچ سیکھنے ہیں۔ تو اس کے لئے آپ کو یقینا میاں صاحب کے پاس زانوئے تلمذ ہونا پڑے گا۔

میں پنگے باز سجنا
پنگا میری راج دلاری
تو کہے غدار لاڈلا
مجھے مٹی پیاری

تو میاں صاحب نے اس بار پنگا لینے کا جو نیا سلسلہ شروع کیا ہے۔ وہ غالبا پارٹی کی ساکھ بچانے، الیکشن کے لئے پارٹی کی پوزیشن مضبوط کرنے، مخالفین سے دو دو ہاتھ کرنے اور ہمدردی کے ووٹ حاصل کرنے کی سازش ہے۔ سازش میں اس لئے کہ رہا ہوں کہ ”بہت دیر کردی مہربان آتے آتے“ کے مصداق پانچ سال گزرنے کے بعد یکایک جناب کو خیال آیا کہ ایسا کیوں اور کیسے ہوا؟ جناب اپنی تیاری پوری کرلیا کریں، یہاں کا کچھ اتا پتا نہیں چلتا۔ بعد میں پھر ”مجھے کیوں نکالا“ کہہ کر اپنی اور عقیدت مندوں کی جان مفت میں عذاب میں ڈالتے ہو۔ ارےبھئی جب اللہ تعالی کے فضل و کرم سے وڈے وزیر تھے تو جانچ پڑتال کر لیتے۔ جناب اب مئی کے گرمی والے روزوں میں مومنوں کی جان عذاب میں کیوں ڈالتے ہو۔ بیچارے پہلے ہی گرمی سے ادھ موئے ہوچکے ہیں۔ خوف خدا بھی کوئی چیز ہوتی ہے پیارے میاں صاحب۔ لیکن میاں صاحب ہم فقیروں کی عرض گذاشت تھوڑی سنتے ہیں۔ اور پھر پنگا لینے کا نشہ ہی ایسا ہے کہ ایک بار سر چڑھ جائے تو اترنے کا نام تک نہیں لیتا، وہیں ڈیرے ڈال لیتا ہے۔

یہ ہے کھیل آگ کا
ہنگامہ نوری و ںاری
اسے مت چھیڑ نادان
کہ ہے کھیل بھاری

“پل میں تولہ پل میں ماشہ“ کی سیاست کے مصداق میاں صاحب کے سیاسی پنگا لینے کے محرکات کو جاننا یقینا جوئے ‎شیر لانے کے مترادف ہے۔ وہ ‎سیاسی شطرنج اور تاش کے ماہر اور تجربہ کار کھلاڑی ہو کے مہرہ آگے کرنے اور پتہ پھینکنا خوب جانتے ہیں۔ اس وقت مہرہ کام کا نہیں ہوتا ہوگا اب ضرورت پیش آئی تو آگے کردیا۔ اللہ جانے آگے کتنے مہرے آگے کرتے اور پتے پھینکتے ہیں۔ میاں صاحب ہیں۔ ان سے کچھ بعید نہیں۔

پنگا جو سر چڑھ کر بولے
تو سیاست پہ ضرب کاری
میں فارغ البال جو ہوں تو
کرسی کی دوڑسے عاری

میاں صاحب کو پنگے لے کر غازی مردمیدان بننے کا بہت شوق ہے۔ اسی لئے پارٹی اور سیاست کے مفاد میں پنگے لینے سے کبھی باز نہیں آتے۔ ان کے تازہ پںگے سے لگتا ہے۔ کہ وہ اڈیالہ جیل جانے کے لئے بے چینی سے پر تول رہے ہیں۔ غازی مردمیدان بننے کا شوق جو پورا کرنا ہے۔ اپنی مقبولیت کا گراف بڑھا کر پارٹی کی حکومت تک رسائی کے لئے راہ جو ہموار کرنی ہے۔ اور غالبا ایسا لگ رہا ہے کہ وہ ان دنوں سجاد علی کے گانے کی دھن سے لطف اندوز ہوتے ہوئے چہرہ پرنور پہ پیاری سی مسکان سجائے ایک زبردست گنگناہٹ فرما رہے ہوں گے۔

ہر ظلم ترا یاد ہے، بھولا تو نہیں ہوں
اے وعدہ فراموش میں تجھ سا تو نہیں ہوں

ساحل پہ کھڑے ہو تمہیں کیا غم، چلے جانا
میں ڈوب رہا ہوں، ابھی ڈوبا تو نہیں ہوں

چپ چاپ سہی مصلحتاَ وقت کےہاتھوں
مجبور سہی وقت سے ہارا تو نہیں ہوں

مضطرؔ کیوں مجھے دیکھتا رہتا ہے زمانہ
دیوانہ سہی، اُن کا تماشا تو نہیں ہوں (آفتاب مضطر)

وطن عزیز میں پنگا لینے کی ایک سنہری تاریخ ہے۔ اردو ادب میں حبیب جالب اور فیض احمد فیض کی شاعری یقینا انقلابی شاعری کے زمرے میں آتی ہے۔ لیکن ملکی حالات و تواریخ کے تناظر میں دیکھا جائے۔ تو یہ شاید ادب کے دائرے کے اندر ادبی پنگا لینے والی شاعری لگتی ہے۔ اوپر سے جالب صاحب کی ”میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا“ کی گردان تو اور بھی اس مفروضے کو تسلیم کرانے پر مجبور کراتی ہے۔ ان حضرات کی شاعری پڑھ کے عیاں ہوتا ہے کہ ان درویشوں نے تو ذاتی مفاد کی بجا‎ئے محروم، مظلوم، محکوم طبقات اور مٹی کی خاطر یہ پنگا لیا تھا۔ ہاں کچھ یاروں نے یقینا ان کے خلاف وقتی فائدے کی خاطر سازشی تھیوریز پھیلاتے ہو ئے ان کی شاعری کو نفرت کی بھینٹ چڑھایا تھا۔ محروم، مظلوم، محکوم طبقات اور مٹی کی خاطر اسی طرح کا پنگا آفاقی اسلوب والے اور غدار غدار سا ناول لکھنے والے کرشن چندر نے بھی لیا تھا شاید۔

اور سب بھول گئے حرف صداقت لکھنا
رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا
لاکھ کہتے رہیں ظلمت کو نہ ظلمت لکھنا
ہم نے سیکھا نہیں پیارے بہ اجازت لکھنا
صبح کا آفتاب چمکے گا
ٹوٹ جائے گا جہل کا جادو
پھیل جائے گی ان دیاروں میں
علم و دانش کی روشنی ہر سو (حبیب جالب)

اب نہ لہکے گی کسی شاخ پہ پھولوں کی حنا
فصل گل آئے گی نمرود کے انگار لئے
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں (فیض احمد فیض)

پر مجھ جیسے کوڑھ مغز یہ پھیلی سمجھنے سے قاصر ہیں۔ کہ ایسے لوگ خوامخواہ کے پنگے لیتے کیوں ہیں۔
غدار سےچہرے غدارجیسے لوگ
پر بول ان کے سچے لگتے ہیں
نہ عزت نہ ہی شہرت کی کمی
پھر بھی پنگے اچھے لگتے ہیں
غدار غدار کے عجب کھیل میں
بندھے ہوئے ڈور کچے لگتے ہیں

آج کل پنگا لینے کا دوردورہ ہے۔ اسی ضمن میں ہالی ووڈ، بالی ووڈ اور لالی ووڈ کے مہ جبینوں نے جنس باطل مردانہ سے پنگا لینے کا اک نیا وطیرہ ”می ٹو“ کمپیں کے بینر تلے شروع کیا ہے۔ اور بغیر کسی رنگ، نسل اور مذہب کی تفاوت کے، اس بینر تلے سارے مہ جبیں و نازنیں ایک ہیں۔ اب آپ خود سوچیں جب یہ مہ جبیینائیں اور نازنینائیں ہوشربا اور عجبیب و غریب جغرافیائی ہئیت کے ساتھ قاتل اداؤں سے بھرپور ہوکے نین مٹکاتی ہیں۔ تو چند حسن پرست باطل مردانہ قوتیں تو یقینا ”تیرے مست مست دو نین میرے دل کا لے گئے چین“ گنگناںے پر مجبور ہو جاتی ہوں گی۔ ویسے اس حد تک تو حسن پرستی غالبا جنسی ہراسانی کی حدود و قیود میں داخل نہیں ہوتی ہوگی۔ ہاں چند لفنگے یقینا آپے سے باہر ہوکر صنف نازک کے ساتھ جنسی ہراسانی کا پنگا لینے سے باز نہیں آتے ہوں گے۔ لفنگے سے مجھے یاد آیا کہ پچھلے دنوں ایک خان صاحب“ لڑکیوں کو لفنگے پسند ہیں“ کے ہوشربا ٹائٹل والے کالم کے ساتھ ”می ٹو“ کے مہ جبینوں کے ساتھ پنگا لینے سے باز نہیں آئے تھے۔ خان صاحب ہیں جو جی میں آ‎ئے کرگزرتے ہیں۔ تو ”می ٹو کی طرح جنسی ہراسانی کے خلاف پنگا سعادت حسن منٹو نے بھی اپنے جنسی جنسی ہراساں افسانوں کے ذریعے لیا تھا پر یار لوگوں نے ”الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے“ کے مصداق جناب پہ جنسی بے راہ روی پھیلانے کا الزام لگایا تھا۔ اسی لئے تو آج کل اہل زبان حضرات پنگا لینے سے کنی کتراتے ہیں۔ کیوںکہ پنگا لینے کی صورت میں نہ تو بال رہیں گے اور نہ ہی بچے شاید!

بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے (فیض احمد فیض)

لیجیے جناب، آخر میں فیض صاحب کی مسکان سے بھرپور پنگے باز سی نظم ”پنگے باز سجنا“ کو الوداع کہنے کے لئے پیش خدمت ہے۔
”پھول مرجھا گئے سارے“
شمعیں بے نور ہو گئی ہیں
آئینے چور ہو گئے ہیں
ساز سب بج کے کھو گئے ہیں
پایلیں بج کے سو گئی ہیں
اور ان بادلوں کے پیچھے
دور اس رات کا دلارا
درد کا ستارا
ٹمٹما رہا ہے
جھنجھنا رہا ہے
مسکرا رہا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).