یہاں روزہ دار کون ہے؟


کھانے کا جنون ہمیں بچپن ہی سے ہے۔ امی بتاتی ہیں کہ ابھی ڈھنگ سے بولنا بھی نہیں سیکھا تھا لیکن سالن دیکھتے ہی میز سے اٹھ کھڑے ہوتے۔ ننھا سا منہ بسور لیتے اور امی اپنی مامتا کو جوش میں لاتے ہوئے فورا انڈے کا آملیٹ بنا دیتیں۔ جی اس زمانے کے بچوں کے یہی لاڈ تھے۔ کچھ سال گزرے تو ہماری بسیار خوری اس نہج کو پہنچ چکی تھی کہ کسی کے بھی گھر جاتے تو والدین میزبانوں کو پہلے سے ہی متنبہ کر دیتے کہ ہماری اس اولاد کو کچھ آفر مت کیجئے گا۔ یہ اپنی راہ خود ہی نکال لے گی۔ شرمندگی کی عقل نہ تھی۔ اس لئے مشن سموسہ پر ڈٹے رہتے تھے۔ نو ٹینشن ایٹ آل!

جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو خدا جانے عقل آ گئی یا شرم۔ ان ہم کوکا کولا کی ٹھنڈی بوتل اور بریانی کی پلیٹ دیکھ کر پہلے کی طرح نہ بپھرتے تھے۔ بھلا ہو معاشرے کے حسن کے معیار کا کہ موٹی لڑکی تو ماں باپ کی عزت پر بٹی تھی۔ یوں ہماری اور بریانی کی یہ لو اسٹوری اپنے منطقی انجام کو پہنچی۔ خیر پرانی محبتیں پیچھا کہاں چھوڑتی ہیں۔ عشق وہیں رہا بس وصال ممکن نہ رہا۔

ڈائیٹنگ اس دن سے جو شروع کی تو آج تک قائم ہے۔ اب بھی کن اکھیوں سے کھانے کو گھورتے ضرور ہیں کسی پرانی محبوبہ کی طرح۔ اب بھی چاہے تھوڑا کھائیں لیکن اچھا ہی کھاتے ہیں۔ خیر اتنے عرصے سے فاقہ کشی کی عادت ہو گئی ہے کہ بھوکا رہنا کوئی مسئلہ نہیں۔ رمضان میں جہاں نارمل انسان بھوک پیاس سے بلکتا ہے وہیں آپ کی بہن بالکل چاق و چوبند رہتی ہے۔ آپس کی بات ہے کہ رمضان میں نہ صرف زیادہ کھانے کا لائسنس مل جاتا ہے بلکہ مزہ بھی زیادہ آتا ہے۔ بے شک دنیا کا سب سے لذیذ کھانا افطاری ہی ہے۔ خیر روزے کا مقصد صرف فاقہ ہی نہیں بلکہ اپنے نفس پر مکمل کنٹرول بھی ہے۔ لیکن ہم لوگوں کو اس سے کیا لگے۔

جہاں پوری دنیا میں بشمول غیر مسلم ملکوں کے رمضان پر اشیائے خورد و نوش پر سیل لگ جاتی ہے ہمارے ہاں الٹی ہی گنگا بہنے لگتی ہے۔ سب چیزوں کی قیمتوں کو یوں آگ لگ جاتی ہے جیسے راکٹ ہوں اور ان کا واحد حاصل زندگی ہی اسپیڈ سے شوٹ کرنا ہو۔ اس کے باوجود جو حال ہمارے ہاں رمضان میں کھانے پینے کا ہوتا ہے وہ مت پوچھئے۔ وہ سب بھی بنایا جاتا ہے جو عام دنوں میں نہیں بنتا۔ فروٹ مہنگا ہو یا سستا فروٹ چاٹ بننا تو فرض ہے۔ ہزار کہتے ہیں کہ مسلمانوں پر روزے فرض ہیں پکوڑے نہیں۔ پر نقار خانے میں طوطی کی سنتا ہی کون ہے۔

ہمارے مزاج بھی پہلے سے کہیں زیادہ گرم ہو جاتے ہیں کہ بھیا ہمیں سب جائز یے۔ ہمارا تو روزہ ہے۔ یقین نہ آئے تو کبھی افطاری سے کچھ دیر پہلے کسی مصروف سڑک کا چکر لگا آئیے۔ چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔ جو کوئی غلطی سے روزہ نہ رکھ پائے وہ تو اپنی خیر ہی منائے۔ نہ تو کسی کو کھانا ملے گا اور نہ ہی دو کوڑی کی عزت۔

”تم اس معاملے میں مت بولو۔ تمہارا تو روزہ بھی نہیں۔“
جس کا روزہ نہیں اور بھلے جس بھی وجہ سے نہیں وہ تو بات ہی نہ کرے۔ کھانا پینا تو یوں بھی شجر ممنوعہ ٹھہرا۔ آپ بیمار ہیں یا بوڑھے یہ ہمارا مسئلہ نہیں۔

یہاں یہ امر واضح رہے کہ عورت ہونے کے ناطے ہم پورے روزے رکھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ پورے مہینے میں سے ایک ہفتہ تو یوں بھی اسی چکر میں نکل جاتا ہے۔ اپنے ارد گرد کی حاملہ خواتین کو دیکھیں تو وہ بھی اسی کشمکش کا شکار رہتی ہیں۔ ہمارے ہاں ہسپتالوں میں جتنے لوگ ہوتے ہیں اتنے بازاروں میں نہیں۔ باوجود اس کے کی پاکستان کی زیادہ تر آبادی مسلم ہے لیکن چاہنے کے باوجود روزہ رکھنے سے بہت سے لوگ قاصر ہیں۔

صاحب سوال تو یہ ہے کہ آیا خود کو روزے دار کہلانے والے تمام صاحبان خود بھی روزے سے ہیں یا نہیں؟ اگر خدا کی نظر میں روزہ فاقہ کشی سے بہت آگے کا بیان ہے تو ہم میں سے کتنے لوگ روزے سے ہیں؟ اپنی پرہیزگاری کا پرچار کرنے والے ذخیرہ اندوز تاجران یا پل بھر میں کسی بیمار کو ذلیل کر دینے والے حضرات کہ میاں روزہ کیوں نہیں؟ کون ہے حقیقی روزہ دار؟ فاقہ کشوں کے اس جھرمٹ میں کون ہے خدا کے قانون کا صحیح ماننے والا؟

کبھی کبھی تو یہ لگتا ہے کہ کوئی بھی نہیں۔ اللہ کے اصولوں کے مطابق تو کسی کا روزہ نہیں یہاں۔ پس سبھی پر احترام رمضان آرڈیننس لاگو ہے۔ ان سب کو جرمانہ کیجئے۔ ان سب فاقہ کشوں کو کال کوٹھڑی کے پیچھے پٹخ دیجئے۔ بڑی مودبانہ گزارش ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).