آپ نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا


چند صدیاں پہلے تک عورت کے لیے گھر ہی کسی حد تک پناہ گاہ ہوا کرتا تھا، گھر سے باہر اس کی سلامتی اور عزت کو خطرات لاحق تھے۔ اس لیے عورت کا تعلق خواہ کسی مذہب یا مکتبہء فکر سے ہو وہ گھر سے باہر نکلتے وقت اپنے جسم کو پوری طرح ڈھانپ لیا کرتی تھی۔ اور ایسا کرنے کا حکم ان کے مذہبی رہنماؤں کی جانب سے بھی تھا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جس جس خطے میں عورت کو اپنے تحفظ کا احساس ہوتا گیا۔ اس نے اپنے مزاج کے مطابق اور گھر والوں کی اجازت سے خود کو پردے کی قید سے آزاد کرنا شروع کر دیا۔ کچھ مسلم ممالک کی خواتین نے بھی خود کو پردے کے بغیر محفوظ محسوس کیا تو پردہ ترک کر دیا۔

ہر شخص کا بنیادی حق ہے کہ وہ اپنی سہولت کے مطابق زندگی بسر کرے۔ اگر اس کی سہولت کسی کو آزار میں مبتلا کر رہی ہے تب وہ اپنی طرزِ زندگی پر نظر ثانی کر سکتا ہے۔ مگر عورت کو ہمیشہ اسلامی تعلیمات بھلا دینے پر تذلیل کی جاتی ہے۔ اسے برے القابات سے نوازا جا تا ہے۔ کیا اسلامی تعلیمات کی پیروی صرف عورت پر اس طرح فرض ہے جس طرح مرد چاہے؟ کیا عورت قرآن کی ان ہی آیات کو سمجھے یا ان ہی حصوں کا مطالعہ کرے جن پر مرد نے نشان لگا یا ہو۔

ایک مسلمان عورت جب مرد کی چار شادیوں کے حق کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے تو اسے رسولؐ کی سنت یاد دلا ئی جاتی ہے۔ جب کسی عورت نے اپنی سہولت کے مطابق بچوں میں وقفے یا ان کی تعداد کے بارے اپنا حق استعمال کرنا چا ہا تویہاں بھی اسے اسلامی تعلیم سے نا بلد ہو نے کا طعنہ دیا جا تا ہے، کہ” آپ نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا ‘‘ یا یہ کہ ” در اصل ہم نے قرآنی تعلیمات بھلا دی ہیں ‘‘

شرم گاہوں کی حفاظت اور نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم مردوں کے لیے بھی ہے، ہم نے تو آج تک نہیں دیکھا کہ کسی مسلمان مرد نے کسی دوسرے مرد کو خواتین کو گھورنے اور گندے اشارے کرنے پر اسلامی تعلیمات کا درس دیا ہو۔ قران میں نشہ حرام ہے کتنے مرد ہیں جو سگریٹ، پان، گٹکے کا نشہ کرتے ہیں۔ یہ نشہ ان کی صحت اور پیسے کو برباد کر رہا ہے کیا آپ نے اسی شدو مد سے ایسے لوگوں کو اسلامی تعلیمات کا سبق دیا۔ جیسے آپ کسی بے پردہ عورت کو دیتے ہیں۔

آیات اور احادیث کا حوالہ دے کر عورت کو نصیحت کی جاتی ہے کہ اس کی آواز بھی نا محرم کو سنائی نہ دے اور اس کا بال بھی نامحرم کو دکھا ئی نہ دے۔ اگر بیٹی دروازے یا کھڑکی سے جھانکے تو اسلامی تعلیم اور شرم و حیا کا طویل لیکچراور اگر بیٹوں کے قصے محلے والے آکر سنائیں تو بیوی سے ہنس کر کہا جا تا ہے۔ بھئی اس کے لیے اب لڑکیاں دیکھنا شروع کر دو۔

قندیل اور مولانا عبدالقوی خان کا معاملہ کون نہیں جانتا، کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ ایک نا محرم سے، ان کا بھی اتنا ہی پردہ واجب ہے جتنا ایک مسلمان عورت کے لیے پردے کا حکم ہے۔ لیکن کیا کسی نے مولانا کو اسلامی تعلیم بھلا دینے کا طعنہ دیا۔ کیا کبھی کسی با شرع مرد نے کسی کلین شیو، ننگے سر مرد کو سر پر ٹوپی اور چہرے پر داڑھی رکھنے کی تاکید کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات یاد دلائیں؟ انہیں کیوں نہیں بتا یاکہ خدا کی خوشنودی کیسے حاصل کرنی ہے۔

خیر آپ نے تو کبھی بجلی چوری نہیں کی ہو گی لیکن کیا اپنے خاندان کے کسی فرد یا اپنے دوست کو بجلی چوری کرنے پر اسلامی تعلیمات بھلا دینے پر سر زنش کی ہے۔ بھاگتے دوڑتے ٹریفک میں کسی بائک والے بچے کو زندگی کی حفاظت کرنے پر اسلامی تعلیمات کا حوالہ دیا ہے۔ دواؤں اوراشیائے خورد ونوش میں ملاوٹ کرنے والوں کو بھی اسلامی تعلیمات یاد کرنے کی تلقین کر دیں۔ خواتین کو اسلامی تعلیمات کا سبق دینے والے ضرور اسلامی تعلیم سے بہرہ ور ہوں گے اور عمل بھی کرتے ہوں گے، با جماعت نمازیوں کے ساتھ انہوں نے کتنی بار نماز پڑھی ہو گی، ان میں سے کتنوں کے حالات سے آپ واقف ہوں گے۔ چلیں ان کے نام تو ازبر ہو ں گے آپ کو؟ اگر نہیں تو باجماعت نماز کے فا ئدے آپ کیوں بھول گئے۔

شادیوں میں بے جا اصراف پر کیا آپ نے کسی کو اسی شد ومد سے اسلامی تعلیمات یاد دلائیں۔ وعدہ خلافی کرنے، جھوٹ بولنے، خواجہ سراؤں اور بے بس لوگوں کا مذاق اڑانے، بڑھا چڑھا کر عیب بتا نے، بہتان طرازی کرنے والوں، نقلیں اتارنے، مزدور اور محنت کش طبقے سے بے گار لینے والوں، گندے لطیفے سنانے والوں کو اسلامی تعلیمات کے مطالعے کا مشورہ دیا؟

کیا کبھی آپ نے اسلام کی تعلیمات بھلا دینے کی فہمائش کسی سرکاری اسپتال کے بد اخلاق عملے سے کی، گندگی پھیلانے والو ں کو نصف ایمان کا سبق یاد کروایا، منافع خوروں کی اسلامی تعلیمات بھول جانے پر تذلیل کی، کیا آپ خود اپنے اختیار کا کبھی ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلامی تعلیم کو ذہن میں لائے۔ چار شادیوں کی مثال کو اپنے حق میں استعمال تو وہ خواتین بھی کرتی ہیں جن کی دوسری شادی کی راہ میں پہلی بیوی مزاحم ہو تی ہے۔ لیکن جب وہی مرد اپنا شرعی حق استعمال کرتے ہوئے تیسری بیوی لاتا ہے تب ایک گہری خاموشی اختیار کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔
اگر محلے کی کوئی عورت کسی غیر مرد سے ہنس ہنس کر باتیں کرے تو اسلامی تعلیمات سے بے بہرہ، لیکن اگر مخاطب آپ ہوں تو وہی عورت با اخلاق اور شوخ مزاج قرار پائے گی۔

کیا ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ گھر بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے ہیں لیکن فون پر کہہ رکھا ہے کہ آپ ٹریفک میں پھنسے ہوئے ہیں بس پہنچ رہے ہیں۔ کیا آپ نے معذرت کرنے کے بجائے کسی کو مدد کا آسرا کبھی نہیں دیا۔ ہم سالوں کی نہیں صرف ایک دن کی بات کر رہے ہیں اپنے دن کے آغاز سے رات گئے بستر پر جانے تک ذرا اپنے اعمال کا احساب لیجیے بتا ئیے کتنے کام ایسے تھے جو آپ نے سنتِ رسول کی پیروی میں کیے اور کتنے کام تھے جن پر آپ کو اسلامی تعلیم کا حوالہ دے کر تنبیہہ کی جا سکتی تھی۔

یہ طاقت ور مرد جو عورت کو بھولا سبق یاد دلا رہا ہے، جسے، جسمانی اور دماغی توانائی، فطرت یعنی عورت کے طفیل عطا ہوئی ہے۔ یہ کبھی چھٹانک بھر بھی تھا جس کی سانس کی ڈوری رو کنے کو وہ بے خبر ہاتھ ہی کا فی تھا، کہ اگر ماں ڈھیلا چھوڑ کر نیند کی یک جھپکی بھی لے لیتی۔

شاید ہم عورتیں، اسلام کے ایک حکم کی بھی اس طرح پیروی نہیں کرتے، جیسی کہ اسلامی تعلیمات کا سبق ازبر کر لینے والے ہم سے توقع کرتے ہیں۔ لیکن ہم یہ بات اچھی طرح جانتی ہیں کہ فطرت ہم پر مہر بان ہے۔ ہم جیسی بھی ہیں فطرت کی چہیتی ہیں۔
نہ تو فطرت عورت کو چھوڑے گی نہ عورت فطرت کو، فطرت اور عورت ایک ہی روپ ہیں۔ پردے کے حکم کی خلاف ورزی ہمیں نافرمان ٹھہر ا سکتی ہے، گناہ گار نہیں۔

عشق، عورت اور فطرت ایک دوسرے سے گندھے ہیں۔ عورت فطرت سے جدا ہو گی نہ عشق کرنا چھوڑے گی۔ ۔ عورت، فطرت سے بہت نزدیک ہے۔ فطرت نے عورت کو وہی تخلیقی صلاحیتیں تفویض کی ہیں، وہی اعلیٰ صفات بخشی ہیں، جو اس کا خاصا ہیں۔ عشق کی سیرابی نے عورت کے اندر صبر اور برداشت کی وہ قو ت عطا کی ہے جس کی بدولت وہ بچے کو جنم دیتی ہے، نسلِ انسانی آگے بڑھاتی ہے۔ ہماری قدرت سے قربت کو ایک ہی ثبوت کافی ہے کہ اسے نے ہمیں عورت ہونے کا اعزاز عطا کیا ہے۔ آپ شکر کیجیے کہ آپ عورت نہیں۔ ہمیں فخر ہے کہ ہم عورت ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).