اے خدا مرے ابّو سلامت رہیں


سیانے کہتے ہیں کے جو مکا لڑائی کے بعد یاد آے اسے اپنے ہی منہ پہ مارنا چاہیے۔ نہ جانے کیوں ہمارے سیاستدانوں، فوجی جرنیلوں، بیوکرسی حتیٰ کے تعلیم و تدریس کے پیشے سے وابستہ لوگوں کو سسٹم کے اندر رہتے ہوے سسٹم کی خرابیاں کیوں نظر نہیی اتی؟ اور اگر اتی بھی ہیں تو وہ ان کے خلاف آواز کیوں نہیی بلند کرتے؟ جب سسٹم سے بیدخل ہو جاتے ہیں یا پھر بیدخل ہو جانے کا خطرہ محسوس کرتے ہیں تو ان کو سسٹم کی خرابیاں بھی نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں اور ان کو ٹھیک کرنے کا بھی خیال ستانے لگتا ہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد سوانح حیات لکھنے کا خیال بھی۔

آپ ساری سوانح حیات اٹھا کے دیکھ لیں آپ کو یہی کہانی نظر ائے گی۔ کوئی ان سے پوچھے کے جناب آپ جب سسٹم کا حصہ تھے تو آپ نے کون سا تیر مارا؟ ہمارے لوگوں کو سسٹم کی خرابیاں نظر بھی آتی ہیں اور ان کا حل بھی اچھی طرح معلوم ہے۔

میری رائے میں اس کی بہت ساری وجوہات ہو سکتی ہیں مگر ہمارے معاشرے میں ”اے خدا مرے ابّو سلامت رہیں“ کا جو کلچر بن چکا ہے وہی سسٹم ٹھیک نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اس کلچر میں ہر شخص اپنے سسٹم کو ٹھیک کرنے کے بجاے صرف اور صرف سسٹم میں موجود اپنے ”ابا جی“ کو خوش رکھنے اور ابا جی کی خیریت مانگنے اور دریافت کرنے میں ہی لگا رہتا ہے۔ ابا جی کی ڈیفنیشن ہر ایک کی مختلف ہے، یہ اس بات پہ منحصر ہے کے آپ سسٹم میں کس جگہ موجود ہیں۔ دوسروں کا برخودار بنتے بنتے انسان میںخود ابا جی بننے کی خواہش پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے اور اسی جگہ سے خرابی شروع ہوتی ہے۔

عنقریب متوقع الیکشن کی وجہ سے یہ سوال ہر جگہ گردش کر رہا ہے کہ الیکشن کے بعد میرے ابا جی کا کیا بنے گا؟ اور اگر ابا جی نہ رہے تو نیا ابا جی کون ہو گا؟ کیا وہ مجھے اپنی فرزندگی میں قبول کرے گا؟ غرض ہر شخص اسی سوچ میں مبتلا ہے اور جس کو اپنا ابا جی جاتا ہوا نظر آ رہا ہے وہ سوگ میں مبتلا ہے۔

ہم نہ جانے کب ہم فرد / افراد کے بجائے سسٹم کا سوچنا شروع کریں گے؟ یہی وجہ ہے کے جب ابا جی لتر مار کے باہر کرتے ہیں تو پھر ہم پوچھتے پھرتے ہیں کہ ”ہمیں کیوں نکالا؟ “ اور ساتھ ہی ابا جی کی خامیاں اور کمزوریاں بھی نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).