ماؤں کو زندہ اور صحت مند رکھو


\"lubnaپچھلے سال جب ہم سارے بہن بھائی انڈیا جارہے تھے تو یہی پلان بنایا کہ ہمیں‌ سب کو الگ الگ جانا چاہئیے۔ اگر جہاز کریش ہوگیا اور پانچوں‌ اکھٹے مر گئے تو امی اکیلی ہوجائیں‌ گی۔ ان کو بہت غصہ آئے گا کہ پہلے ابا چھوٹے بچے چھوڑ کر چل بسے پھر یہ بچے اتنی مشکل سے بڑے کئے تو وہ بھی سارے اکھٹے چلے گئے۔ یہ باتیں‌ کرتے ہوئے ہم لوگوں‌ کے قہقہے نکل گئے۔ جب آپ نے زندگی کی شروعات میں‌ موت دیکھی ہو تو ایسے ہی روگی خیالات کا بن جانا آسان بات ہے اور ان پر ہنسنا بھی سیکھنا پڑتا ہے۔ امی کو زندہ اور صحت مند رکھو! یہ ہمارا فیملی ماٹو ہے۔

پچھلے ہفتے ایلک پرائمری کئیر ڈاکٹر کا ٹیکسٹ آیا کہ میرے ایک مریض‌ کو آپ کو فوراََ دکھانے کی ضرورت ہے کیونکہ ان کا ذیابیطس کا کنٹرول بہت بگڑا ہوا ہے۔ عموماََ سب پیپر ریفرل بھیجتے ہیں اور ان کو تین مہینے بعد کا ملاقات کا وقت ملتا ہے کیونکہ ہمارے آفس میں‌ایک لمبی ویٹنگ لسٹ ہے۔ اس کیس کو میں‌ نے ارجنٹ کے طور پر دیکھنے کی حامی بھری۔ جب یہ صاحب آئے تو میں‌ نے ان سے پوچھا کہ کیا انہوں‌ نے ذیابیطس کی کلاس لی ہے کیونکہ ذیابیطس کی کلاس لینا تمام مریضوں‌ کے لئے ذیابیطس کا علاج کرنے کا نہایت اہم حصہ ہے۔ انہوں‌ نے کہا کہ ‌ذیابیطس کی کلاس تو نہیں‌ لی لیکن آپ کی کتاب پڑھی تھی۔ یہ سن کر میں‌ نے ایک لمحے کو خوشی محسوس کی لیکن وہ دوسرے لمحے میں‌ ہی کافور ہو گئی کیونکہ ان کی ذیابیطس کا کنٹرول واقعی بگڑا ہوا تھا۔ میں‌ نے سوچا کہ شائد کتاب اچھی نہیں‌ لکھی اس لئے اس کو پڑھنے سے لوگوں کا فائدہ نہیں‌ ہو رہا۔

میں ایک اینڈوکرنالوجسٹ ہوں۔ یہ فیلڈ ابھی زیادہ عام نہیں ہوئی ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اس شعبے کی کوئی خاص ضرورت یا اہمیت نہیں ہے۔ امید ہے کہ قارئین اپنے خیالات پر نظر ثانی کریں گے۔ اینڈوکرینالوجی ہارمون سے متعلق بیماریوں کی تعلیم کو کہتے ہیں۔ ہارمون ایسے کیمیائی اجزاء ہیں‌ جو جسم کے ایک حصے سے نکل کر دوسرے حصوں‌ پر اپنا اثر ڈالتے ہیں۔ ذیابیطس چونکہ انسولین کے نظام میں‌ خرابی کے باعث ہو جاتی ہے اور دنیا میں‌ اس کے لاکھوں‌ مریض موجود ہیں‌ اس لئے یہ ہماری پریکٹس کا بڑا حصہ ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اندازے کے مطابق دنیا میں‌ 350 ملین افراد کو ذیابیطس کا مرض لاحق ہے۔ جنوبی ایشیاء میں‌ ایک بڑی تعداد ایسے افراد کی ہے جن کو یہ بیماری ہے اور وہ اس سے لاعلم ہیں۔ ذیابیطس کی بیماری کئی پیچیدگیوں کا سبب ہونے کی وجہ سے نہ صرف لوگوں کی صحت اور خوشگوار زندگی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے بلکہ ملک کی معیشت  پر بھی منفی  اثر ڈاتی  ہے۔

شروع کی سطوحات میں‌ ذیابیطس کی کوئی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔ ہم نے بچپن میں‌ یہی دیکھا کہ جب کوئی شدید بیمار ہوجائے تبھی ڈاکٹر کو دکھانے جاتے تھے۔ ہر سال چیک اپ اور روٹین لیب کرانے کا اتنا زیادہ رجحان نہیں‌ پایا جاتا۔

ایک مرتبہ ہمارے ایک کزن سے بات ہورہی تھی انہوں‌ نےکہا کہ ہر مہینے مجھے فارمیسی والے کال کرتے ہیں کہ آکر اپنی دوا گلوکوفاج لے جائیں‌ مگر میں‌ نہیں‌ جاتا ہوں۔ دوائی لینا شروع کی تو بیماری بڑھتی جائے گی۔ میں‌ نے ان کو سمجھایا کہ آپ ایسا مت کریں۔ اپنی شوگر کو نارمل لیول میں‌رکھیں‌ تاکہ اپنے آپ کو ذیابیطس کی پیچیدگیوں‌سے بچا سکیں۔
ذیابیطس کے بارے میں اردو میں کتاب لکھنے کا خیال میرے ذہن میں اسی لئے آیا کیونکہ ہماری فیملی میں کئی لوگوں کو ذیابیطس ہو گئی اور ان سے بات چیت کے دوران میں‌ نے یہ محسوس کیا کہ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اکثر لوگ ذیابیطس کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتے اور یہ بھی کہ ان کے ذہن میں اس بیماری کے متعلق کچھ غلط تصورات بیٹھے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے علاج میں‌ رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔

\"suger\"ذیابیطس کے بارے میں‌ معلومات پچھلی دہائیوں‌ میں‌ کافی تیزی سے بڑھی ہے اور اس کی کافی ساری نئی ادویات نکل آئی ہیں۔ اپنی معلومات میں‌ اضافہ کرنے کے علاوہ میں‌ نے یہ بھی سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ ان معلومات کو آسان کر کے مریضوں‌ تک کیسے پہنچایا جائے۔ ویسے تو ہر مریض کے لئے اس کی بیماری کو سمجھنا  ضروری ہے لیکن یہ بات ذیابیطس کے مریضوں کے لئے اور بھی اہم اس لئے ہے کیونکہ ذیابیطس کے علاج کی کامیابی ایک ٹیم ورک کے ذریعے ہی ممکن ہے جس کا سب سے اہم ممبر مریض خود ہے۔

امریکہ میں جنوبی ایشیائی افراد کی ایک بڑی تعداد موجود ہے لیکن چونکہ وہ آبادی کا صرف ایک فیصد ہیں‌ اس لئے ان کی ذیابیطس کے مختلف ہونے کے بارے میں‌ زیادہ تر ڈاکٹرز نہیں‌ جانتے ہیں۔  کتابیں انگریزی میں ہیں اور خاص طور سے ان لوگوں‌ کو ذہن میں رکھ  کر نہیں لکھی گئی ہیں۔ انڈیا، پاکستان، انگلینڈ اور امریکہ جہاں‌ بھی ہمارے اپنے رشتہ دار بستے ہیں‌ ان کو ذاتی طور پر دیکھ کر میں‌ کہہ سکتی ہوں‌ کہ کچھ ذیابیطس کی وجہ سے کم عمری میں انتقال کر گئے اور کچھ کواس کی پیچیدگیاں لاحق ہو گئی ہیں۔

ہماری ماں بھی زیادہ تر لوگوں‌ کی ماؤں کی طرح وزن میں‌ زیادہ ہیں۔ ان کی جنیریشن میں‌ جاب کرنے کا، بچے محدود کرنے اور اپنی صحت کا خیال کرنے کا زیادہ رجحان نہیں‌ تھا۔ جب میں‌ فیلوشپ کر رہی تھی تو ہم لوگ گلوکومیٹر استعمال کرنا سیکھ رہے تھے۔ میرے پاس بیگ میں‌ ایک گلوکومیٹر تھا۔ میری ایک چھوٹی بہن سائکائٹرسٹ ہے اور دوسری نرس ہے۔ ہم سب اس کے گھر میں‌ تھے تو سب کی بلڈ شوگر چیک کی۔ امی کی بلڈ شوگر 325 ملی گرام فی ڈیسی لیٹر آئی۔ میں‌ نے ان سے کہا کہ اپنی دوا کا ڈبہ دکھائیں۔ اس میں‌ تین دوائیں‌ تھیں ایک بلڈ پریشر کی، دوسری ایسپرن اور تیسری اب مجھے یاد نہیں۔ بہرحال ان میں‌ شوگر کی کوئی دوا نہیں‌ تھی۔ \”آپ کے ڈاکٹر کیا کہتے ہیں‌ آپ کی شوگر کے بارے میں؟\” ہم لوگوں‌ نے ان سے پوچھا تو وہ بولیں‌ کہ مجھے کہا تھا کہ آپ کی شوگر کچھ زیادہ ہے اور کھانے پینے میں‌ احتیاط کریں۔ میں‌ نے ان کو دوائیں‌ لکھ دیں‌ اور یہی کہا کہ اپنے ڈاکٹر کو دکھاتی رہیں۔

اگر آپ خود ڈاکٹر ہوں‌ تو اپنی فیملی کی میڈیکل پرابلمز پر نظر رکھنا تو ٹھیک ہے لیکن ان کا ڈاکٹر بننے کی کوشش نہیں‌ کرنی چاہئیے کیونکہ اگر ان کو کینسر یا کچھ سنجیدہ بیماری ہوگی تو ہو سکتا ہے کہ آپ کو دکھائی نہ دے کیونکہ ایک ڈاکٹر مشین یا روبوٹ نہیں‌ ہوتا ہے بلکہ ایک انسان ہوتا ہے اور کوئی بھی نہیں چاہتا کہ اس کے پیاروں‌ کو کوئی بیماری یا مسئلہ ہو۔ جو چیز ہم دیکھنا نہیں‌ چاہتے ہوں‌ وہ سامنے ہوتے ہوئے بھی دکھائی نہیں دیتی اور جس چیز کو ہمارا دماغ نہیں‌ جانتا ہو اس کو ہماری آنکھیں‌ نہیں‌ دیکھ سکتی ہیں۔

مجھے سال میں‌ تین ہفتہ چھٹی ملتی ہے۔ جمعے کو کلینک ختم کر کے میں‌ اپنے بچوں‌ کے ساتھ شاپنگ مال گئی۔ ہم لوگ وہاں‌ گھوم پھر کر شاپنگ کررہے تھے تو میری ایک کولیگ کا فون آیا۔ اس نے کہا کہ اس غلط وقت ڈسٹرب کرنے کی معذرت لیکن میری امی یہاں‌ کچھ دنوں‌ کے لئےمیرے گھر آئی ہوئی ہیں ان کو ایک دم اچانک گردن میں‌ تکلیف ہو گئی ہے اور تھائرائڈ پھول گیا ہے۔ میں‌ سن کر سمجھ گئی کہ ان کو \’سسٹ\’ بن گیا ہے جس کو ڈرین کرنا پڑے گا۔ ایسے دو تین لوگ میں‌ پہلے بھی دیکھ چکی ہوں۔ اگر لوگ خون پتلا کرنے والی دوا لے رہے ہوں‌ یا ان کو الٹیاں‌ لگی ہوں‌ تو کبھی کبھار تھائرائڈ کی چھوٹی خون کی نالیاں‌ پھٹ جاتی ہیں‌ اور خون کا ایک غبارہ سا بن جاتا ہے۔ اگر چھوٹا سا ہو تو پرابلم نہیں‌ ہوتی لیکن اگر بڑا ہو تو تکلیف بھی ہوسکتی ہے اور نگلنے اور سانس لینے میں‌ مشکل بھی۔ کل اور پرسوں‌ تو چھٹی ہے اور اگلے ہفتے ہم لوگ شہر سے باہر ہوں‌ گے۔ اپنی امی کو لے آؤ۔ رات ہو چکی تھی اور سارا سینٹر بند ہوگیا تھا لیکن میرے پاس بلڈنگ کی چابی ہے، اندر گئے، الٹراساؤنڈ مشین سے تھائرائڈ چیک گیا، دستانے چڑھا کر گردن سن کرکے سوئی اور سرنج سے سسٹ ڈرین کردیا۔ ویک اینڈ پر ان کا درد بالکل ٹھیک ہوگیا۔ اس کہانی سے ثابت ہوتا ہے کہ ماؤں کو صحت مند اور زندہ رکھنا تقریباََ تمام بچوں‌ کا ایجنڈا ہوتا ہے بلکل ویسے ہی جیسے بچوں‌ کو زندہ اور صحت مند رکھنا ماؤں کا۔ اس واقعے کا ذکر اس لئے کیا کہ ماؤں کو اپنے سب بچوں‌ میں‌ انویسٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ بچوں‌ کو برابر کے مواقع فراہم ہونے چاہئے ہیں اور وہ ان کی لیاقت کی بنیاد پر ہونے چاہئے نہ کہ جنس کی بنیاد پر۔ کیا ضرورت پڑی ہے کہ بیٹی کو بیٹے کی ماسی بنا دیں۔ وہ تمام زندگی ماسی ہی بنی رہے گی اور بیٹا معمولی کاموں‌ کے لئے دوسروں‌ پر بوجھ ۔ اگر آپ ان کو تعلیم یافتہ اور طاقت ور بنائیں‌ گی تو کل آپ کا اپنا بھی فائدہ ہونے والا ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے کوئی درخت لگاتا ہے اور پھر اس کی چھاؤں‌ میں‌ بیٹھ سکتا ہے۔

اگر اس مضمون کو کوئی اور امریکی ڈاکٹر پڑھ رہے ہوں‌ تو ان کو معلوم ہو گا کہ ہر چیز ایک نظام کے ساتھ ہوتی ہے۔ مریض پہلے اپوائنٹمنٹ بناتے ہیں، پھر ان کا پیپر ورک ہوتا ہے اور میڈیکل چارٹ بنتا ہے جس میں‌ ہر بات ریکارڈ کی جاتی ہے اور یہ ایک لیگل ڈاکومینٹ ہوتی ہے۔ یہ کولیگ خود بھی ڈاکٹر تھیں اور انہوں‌ نے اپنے اثر و رسوخ اور معلومات سے کام لے کر اپنی فیملی کی مدد کی۔ ان کی جگہ اور کوئی ہوتا تو یا تو گھر میں‌ بیٹھے ہی تکلیف برداشت کرنی ہوتی یا پھر ایمرجنسی روم جاتے جہاں‌ سے ہزاروں‌ڈالر کا بل بن جاتا۔

‌ہم لوگ جب امریکہ شفٹ ہوئے تو اس زمانے میں‌ یہ سارے سیل فون، نیویگیشن سسٹم، انٹرنیٹ اور انٹرنیشنل ٹی وی وغیرہ نہیں‌ ہوتے تھے۔ اس وقت ملک سے نکلتے ہی آپ واقعی ملک سے نکل جاتے تھے۔ جب میں‌ نے ایک کاپی اور پینسل اٹھائی اور اردو میں‌ لکھنا شروع کیا تو میں‌ دو جملے تک نہیں لکھ پارہی تھی۔ 20 سال اوکلاہوما میں‌ رہ کر ہم اپنی مادری زبان ہی بھول جائیں‌ گے ایسا کبھی نہیں‌ سوچا تھا۔ پھر میں‌ نے بی بی سی کی اردو خبریں روز پڑھ کر اردو دوبارہ سیکھی۔ کتاب لکھنے کے دوران نزیر نے بہت مدد کی۔ لکھتے لکھتے میں‌ سر اٹھا کر کہتی اس لفظ کو اردو میں‌ کیا کہتے ہیں‌ تو وہ بتا دیتے تھے۔ ایک اکیلا اور دو گیارہ ہوتے ہیں۔ جب کتاب لکھی تو اس کو امی کو، ماموں‌ کو، اپنے ساتھ فیلوشپ کرتے ہوئے ڈاکٹر خان کو اور ڈاکٹر فردوس کو پڑھنے کے لئے دی۔ ڈاکٹر فردوس سے اوکلاہوما سٹی کے وی اے ہسپتال کے ایمرجنسی روم میں‌ ملاقات ہوئی۔ یہ وہ ڈاکٹر فردوس ہیں‌ جن کی چھوٹی کتاب سارے میڈیکل اسٹوڈنٹس امتحان سے پہلے پڑھ رہے ہوتے تھے۔  ان سب نے اچھے مشورے دئیے جن کی مدد سے میں‌ نے اس کتاب کو بہتر بنایا۔ اگر ارادہ پکا ہو تو آپ مشکل سے مشکل کام بھی کرسکتے ہیں۔ اس لئےارادہ کریں‌ کہ بیمار پڑنے کا انتظار کرنے سے پہلے، ٹانگ، آنکھیں‌ اور گردے گنوانے اور دل کا دورہ پڑنے سے پہلے اپنا چیک اپ کرائیں۔

امی کو تقریباََ سات سال پہلے شوگر اور کولیسٹرول کی دوائیوں‌ پر اسٹارٹ کیا تھا۔ چونکہ ہمارے کلینک میں‌ گلوکومیٹر، ٹیسٹ اسٹرپ اور مختلف دوائیوں‌ کے فری سیمپل ہوتے ہیں‌ اس لئے جو بھی دوا اگر انشورنس نے کور نہیں‌ کی تو ہم ڈرگ ریپ سے وہ سیمپل لے کر امی کو بھیج دیتے تھے۔ اس دوران جب بھی ملتے تو میں‌ پوچھ لیتی کہ آپ نے شوگر چیک کی یا نہیں‌ اور دوا لے لی یا نہیں۔ ان کو یہی مشورہ دیا کہ اپنے ڈاکٹر کو دکھاتی رہیں۔  حال ہی میں‌ بلڈ پریشر، اے ون سی، کولیسٹرول سب اتنا پرفیکٹ تھا کہ میں‌ دیکھ کر خوش ہوگئی۔ ابھی تک ان کو کوئی پیچیدگیاں‌ نہیں‌ ہوئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
8 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments