مستنصر حسین تارڑ نے کوئی کفر نہیں کیا


چند روز قبل تارڑ صاحب کی جانب سے ایک کالم سامنے آیا جو مجھ سمیت قارئین کی ایک بڑی تعداد کے لیے ایک سرپرائز تھا جس سے کچھ قارئین نے اتفاق اور کچھ نے اختلاف کیا جو سب کا بنیادی حق ہے کہ ہم اپنے نظریات کسی پر زبردستی نہیں ٹھونس سکتے۔ اپنے کالم میں تارڑ صاحب میاں صاحب پر اچھے خاصے برہم نظر آئے اور یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہونی چاہیے کہ تارڑ جیسا محب وطن پاکستانی اپنے ملک کی بدنامی بننے والے کسی بھی غیر ذمہ دارانہ بیان پر جو خاص طور پر ملک کی اہم شخصیت کی جانب سے منسوب ہو، کیسے خاموش رہ سکتا ہے کیونکہ مستنصر حسین تارڑ بھی وطن عزیز کے ان ان گنت پاکستانیوں جیسا ہی ہے کہ جن کی روح ہر پل اپنی دھرتی ماں کی محبت کے نشے میں سرشار رہتی ہے۔ پاکستان کی مارننگ ٹرانسمیشن کی تاریخ کا حصہ چاچا جی، بے شمار شہرہ آفاق سفرناموں، ڈراموں اور ناولوں کا مصنف جن میں راکھ اور بہاؤ کو بھلے جو مرضی مقام اردو ادب میں حاصل ہو، اس کی زندگی میں حاصل ہوئے اعزازات کی گواہی بھی ایک طرف ہو، صرف اپنے سفرناموں سے ہی پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی جو خدمت تارڑ نے کر دی ہے وہ بحیثیت ایک محب وطن اپنے وطن کا حق ادا کرنے کے مترادف ہے۔

تارڑ کا کارنامہ یہ ہے کہ اپنے وطن کے وہ گوشے جن سے ایک دنیا ناواقف تھی، بے خبر تھی، اس نے اس دور میں عیاں کیے جب وہاں کے دشوار گزار سفر کے لیے ذرائع بھی انتہائی محدود تھے اور سفر کی معلومات بھی نہ ہونے کے برار ہوتی تھیں لیکن وہ اپنی دھرتی کے عشق میں دیوانہ ہوکر، اپنی جان کو بار بار خطرے میں ڈال کر اپنے وطن کی جنت جیسی خوبصورتی کو بزور قلم دنیا کی نگاہوں کے سامنے لانے میں سرخرو ہوگیا بلکہ امر ہوگیا۔ اگر تارڑ کے ادب میں سے اس کے وہ سفرنامے جو اس نے اپنے وطن پاکستان کے بارے میں لکھیں ہیں، حذف کردئے جائیں اور باقی کتابوں کو رہنے دیا جائے تو شاید آج وہ عزت کے اس مقام پر فائز نہیں ہوتا جس کی لوگ تمنا کرتے ہیں۔ تو جب ایسا بندہ کسی سیاست داں کے منہ سے کوئی ایسا غیرزمہ دار بیان سنے کہ جس سے اس کے وطن کا امیج خراب ہو تا ہو اور د شمنوں کو الزام تراشی کا ایک اور نادر موقع مل جائے تو پھر ایک قلم کار کے قلم سے وہی ردعمل کی توقع کی جا سکتی ہے جو ان تلخ اور جذباتی جملوں کی شکل میں آئی۔ اب بھلے اگر آپ اس تحریر کا موازنہ کسی کہنہ مشق سیاست پر لکھنے والے صحافی بلکہ سیاست پر سیاسی طریقوں سے لکھنے والے صحافی کی تحریر سے کریں گے تو آپ کی عقل پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔

میاں صاحب کے چاہنے والوں پر تو اس تحریر کا گراں گزرنا معمول کی بات ہی تھی کہ ملک کی کسی بھی سیاسی جماعت کے سپورٹرز کے نزدیک چاہے ان کی جماعت کتنی ہی کرپٹ کیوں نہ ہو، چاہے ان کے کرپشن کے کتنے ہی کارنامے منظرعام پر آجائیں توبھی ان کی جماعت سے زیادہ مظلوم اور ان کے سربراہ سے زیادہ محب وطن اورفرشتہ صفت دنیا میں کوئی اور نہیں ہوتا مگر تعجب کی بات یہ ہوئی کہ اس سے کہیں بڑا ردعمل ہمارے ان کالم نگار، بلاگرز اور نام نہاد تبصرہ نگاروں کی جانب سے آرہا ہے جو خود اپنی تحریروں میں عوام کو رواداری، برداشت، ایک دوسرے کے نظریات کو احترام کی نگاہ سے دیکھنے کا بھاشن دیتے نظر آتے ہیں۔ جو مذہبی انتہاپسندوں پر گرجتے برستے نظر آتے ہیں کہ تم کون ہوتے ہو کسی کو کافر قرار دینے والے خواہ کوئی کتنا بڑے کفر کا ہی مرتکب ہو بیٹھے، تو وہ نام نہاد لبرل بھی اپنے اپنے طریقوں سے تارڑ کا نام لے کر وہی سلوک کررہے ہیں جو سلوک سرعام کسی کو بھی کفر کا فتوی دینے والے کرتے ہیں۔

وہ تمام قابل احترام لکھاری حضرات جن کی ہمدردیاں میاں صاحب کے ساتھ ہیں، تارڑ صاحب کے کالم کی مذمت کرتے ہوئے کھلے اور سخت الفاظ میں تو کہیں ڈھکے چھپے جملوں میں ان کی تحریر کو مضحکہ خیز اور وقت کا ضیاع قرار دے رہے ہیں اور ان کی کم علمی اور ملک کی سیاست سے اتنی بے خبری پر نالاں ہیں کہ انہیں تو امید تھی کہ تارڑ صاحب جو اردو ادب میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں، ایک دنیا کی خاک چھانے ہوئے خاصے تجربہ کار ہیں اور بہت سوں سے تو کہیں زیادہ علم رکھتے ہیں تو وہ بھی عطاالحق قاسمی صاحب کی مانند میاں صاحب کی عقیدت اور محبت میں ڈوبا ہوا کالم ہی تحریر کریں گے مگر انہوں نے تو بہت مایوس کیا۔ جب کہ کچھ کو یہ توقع تھی کہ تارڑ صاحب جو اپنے کالم میں میاں صاحب کی سرزش کرنے کے جرم میں ایک بہت بڑے گناہ کے مرتکب ہوچکے ہیں شاید جلد ہی ان کی جانب سے تردید آجائے کہ حضرات میں میاں صاحب کی شان میں یہ گستاخانہ کلمات بول کر کیسے کفر کا مرتکب ہوسکتا ہوں تو میری تو بہ قبول کیجیے کہ وہ کالم جو آپ نے پڑھا ہے مجھ سے عالم مدہوشی میں سرزد ہوگیا ہے ورنہ میاں صاحب کے طرز حکومت ان کی ایمانداری اور سچائی کا تو ایک زمانہ گواہ ہے اور مجھ میں اتنی قابلیت کہاں کہ میں آپ جسے تبصرہ نگاروں کی مانند جو دلوں کے حال جاننے پر قدرت رکھتے ہیں اس بات کا فیصلہ کرسکوں کہ کون سا سیاست داں غدار ہے اور کون محب وطن۔

لیکن ایک بات تو طے ہے کہ ہم سب بحیثیت قوم اپنے اپنے طریقوں سے کسی کو بھی حقائق سے بے خبر، کم عقل، جذباتی، جانب دار، غدار اور کافر قرار دینے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ مذہب کے ٹھیکے داروں کا تو صرف نام ہی بدنام ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).