چیخوف نے آج کے پاکستان  کے لئے کیا کہا؟


چیخوف کی مختصر کہانیوں کے مجموعے میں میکسم گورکی نے دیباچہ تحریر کیا ہے۔۔۔اس دیباچہ میں میکسم گورکی نے چیخوف سے اپنی ایک ملاقات کا احوال لکھا ہے۔۔۔چیخوف نے اس ملاقات میں گورکی سے بات کرتے ہوئے استادوں کی حالت زار بیان کی ہے جسے پڑھ کر یہ ذکر 1890 کا نہیں لگتا۔۔ اس ملاقات کا احوال یہ ہے۔۔۔

“چیخوف نے ایک بار مجھے اپنے گھر شہر سے باہر ایک دیہات میں بلایا۔۔۔چھوٹا سا دومنزلہ گھر تھا۔۔۔اپنے گھر میں مجھے گھماتے ہوئے وہ مسلسل بولتا رہا۔۔۔اور وہ بھی مختلیف موضوعات پر۔۔۔پھر ایک دم رک گیا اور مجھ سے پوچھا۔۔۔تم کہیں بور تو نہیں ہورہے۔۔۔میں نے کہا نہیں۔۔اس نے کہا مجھے اپنے خواب سنانا بہت اچھا لگتا ہے۔۔۔اور پھر وہ بولنا شروع ہوگیا۔۔۔

چیخوف نے کہا : کیا تمہیں اندازہ ہے روس کے دیہی علاقوں میں سب سے زیادہ ضرورت کس کی ہے؟ پڑھے لکھے ، اچھے اور سمجھدار ٹیچر کی۔ روس میں ہمیں فوری طور پر غیر معمولی ماحول تیار کرنا ہوگا کیونکہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ روس کی ریاست تباہ ہوجائے گی اگر ایسے استاد اس معاشرے میں نہیں ہوں گے جو قریب قریب سب علوم کو جانتے ہوں یعنی آل راونڈ استاد ہوں۔۔ اگر ایسا نا ہوا تو روس ایسے گرے گا جیسے کچی اینٹوں سے تیار گھر گر جاتا ہے۔۔۔

ایک استاد لازمی طور پر آرٹسٹ ہو، ایکٹر ہو، اپنے کام سے عشق کرتا ہو۔۔۔لیکن اس وقت ہمارے ٹیچر نیم تعلیم یافتہ ہیں۔۔جو دیہات میں بچوں کو تعلیم دینے اتنے ہی نیم دلی سے جاتے ہیں جیسے انہیں جلا وطن کیا جارہا ہو۔۔۔ان کی معاشی حالت پتلی ہوتی ہے۔۔ہر وقت یہ غم کھائے جاتا ہے کہ ضروریات زندگی کیسے پوری کی جائیں۔۔

میرے خیال میں ٹیچر لازمی طور پر دیہات میں وہ پہلا آدمی ہونا چاہیے جو کسانوں کے تمام سوالات کے جوابات دے سکتا ہو۔ کسان اس کے علم، قابلیت، فہم و فراست کی وجہ سے اس کی عزت کرتے ہوں۔ جس کے سامنے کوئی اپنی آواز بلند نہ کرسکے۔

یہ بہت افسوسناک ہے کہ جس شخص نے معاشرے کو تعلیم یافتہ بنانا ہے اس کو بہت ہی معمولی رقم دی جاتی ہو۔۔ یہ ناقابل برداشت ہے کہ ایسا شخص خستہ حال ہو۔ کم قیمت کپڑے پہننے پر مجبور ہو۔ ہمیشہ بیمار رہتا ہو اور تیس سال کی عمر میں کسی مستقل بیماری کا شکار ہوجائے۔۔یہ بھی ناقابل قبول ہے کہ ٹوٹی پھوٹی عمارت اور تباہ حال اسکول میں تدریس دی جائے۔۔

میں جب کسی ٹیچر کو دیکھتا ہوں تو شرمندہ ہوجاتا ہوں۔۔اس کی بدحالی دیکھ کر میں سوچتا ہوں اس ٹیچر کی اس بدحالی کا میں بھی ذمہ دار ہوں”

یہ الفاظ تھے چیخوف کے آج سے ایک سو پچیس یا تیس سال پہلے۔۔۔لیکن یہ الفاظ مکمل طور پر آج کے پاکستان پر بھی پورے اترتے ہیں۔۔یہ احوال چیخوف نے ایک سو تیس سال پہلے روس کے ٹیچر کے لیئے نہیں کہا تھا۔۔لگتا ہے اس نے ایک سو تیس سال بعد کرہ ارض پر موجود ریاست پاکستان کے ٹیچرز کے لیئے کہے تھے۔۔۔۔ کیا ہم سب آج ذمہ دار نہیں ہمارے بدحال تعلیمی نظام کے۔۔سرکاری اسکول جہاں اکثریت تعلیم حاصل کرتی ہے۔۔۔جب تک ان کی حالت نہیں سدھرے گی ۔۔جب تک وہاں ایسا استاد نہین آئے گا جسے اپنے کام سے عشق ہو اور جسے ریاست اتنے پیسے دے کہ وہ فکر روزگار اوراس سے وابستہ مسائل سے آزاد رہے۔۔اس وقت تک بہتر پاکستان کی تعمیر مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments