آتش کدہ ہے سینہ مرا راز نہاں سے


غالب نے بہت پہلے کہا تھا

سایہ کی طرح ساتھ پھریں سرو و صنوبر

تو اس قد دل کش سے جو گلزار میں آوے

آتش کدہ ہے سینہ مرا راز نہاں سے

اے وائے اگر معرض اظہار میں آوے

اس تحریر کو ان دو اشعار کی تفصیل سمجھیے لیکن نثر میں احوال واقعی پڑھنے سے پہلے ایک شعر قابل اجمیری کا سن لیجئے

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

اس کائنات میں کچھ بھی خود سے نہیں ہوتا، ہر حادثے کی کوئی نا کوئی علت ہوتی ہے، کوئی موجب ضرور بنتا ہے، چاہے اس کا تعلق زندگی کے جس بھی پہلو سے کیوں نا ہو۔ ہمارے اس دنیا میں آنے سے لے کر اس دنیا سے رخصت ہونے تک۔۔۔ ایک ایسا ہی حادثہ میرے ساتھ بھی پیش آیا جس کو بیان کرنے کے لیے الفاظ کا چناؤ کرنا نا جانے کیوں اتنا مشکل ہو رہا ہے۔

لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ “کی دم دا بھروسہ یار دم آوے نا آوے” آج کل اپنی زندگی کچھ ایسے ہی مراحل طے کر رہی ہے، جس میں آنے والی ہر نئی صبح میرے لیے کسی سرپرائیز سے کم نہیں ہوتی۔ جب میری آنکھ کھلتی ہے اور میں نئی صبح کا آغاز کرتی ہوں۔ اس لیے دل کہتا ہے کہ آج سب کہہ ہی دوں۔ مجھے خدا نخواستہ کوئی جان لیوا بیماری لاحق نہیں ہوئی بلکہ اس سے بھی علیحدہ کوئی روگ لاحق ہو گیا ہے جو نا جینے دیتا ہے نا مرنے دیتا ہے۔ جس نے مجھے ایسے احساسات میں جکڑ لیا ہے کہ نکلنے کا کوئی راستہ ہی نظر نہیں آتا۔

اب یہ بیماری ہے کیا؟ آئیے آپ کو بھی بتاتی ہوں۔ شروعات کچھ ایسے ہوئی جب مجھےاحساس ہوا کہ “سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے ” اور بس پھر میں نے بھی انھی ہاتھوں کو اپنا سہارا بنا کر چلنا شروع کردیا اور چلتے چلتے اتنا آگے نکل گئی کہ بہت کچھ پیچھے ہی چھوڑ آئی۔۔۔ بہت سے اپنے بہت سے دوست احباب پیچھے ہی چھوٹ گئے۔ نا جانے وہ پیچھے رک گئے تھے یا میں بہت آگے نکل آئی، لیکن ان سب میں جو حادثہ پیش آیا، اس کا آغاز بہت ہی خوبصورت تھا کیونکہ جب سب پیچھے چھوٹ گئے تھے تب بس ایک یہی حادثہ تھا جو میرے ساتھ ساتھ پروان چڑھ رہا تھا۔ میرے ساتھ میرے سائے کی طرح کھڑا رہا، ہر مشکل میں ہر تکلیف میں میرے ساتھ رہا۔ ایک پل کیلئے بھی مجھے اکیلا نہیں ہونے دیا، جب سب نے مجھے چھوڑ دیا اس نے میرا ہاتھ تھامے رکھا، ایک محافظ کی طرح میرے ساتھ رہا اور نجانے کب یہ میری ضرورت کے ساتھ ساتھ میری عادت سا بن گیا۔

اور جب تک مجھے اس بات کا احساس ہوا میری یہ بیماری اس اسٹیج تک پہنچ چکی تھی جہاں سے اس کا علاج بظاہر تو ناممکن نظر آتا ہے لیکن ممکن کرنے کی کوشش میں کئی زندگیاں داؤ پر لگ گئی۔ یہ حادثہ ایک دم پیش نہیں آتا، وقت کے ساتھ ساتھ پرورش پاتا ہے، بس آپ کو اس کا علم ہوتے ہوتے وقت لگتا ہے۔ اب سمجھ نہیں آرہی یہاں میں کسی کی زندگی بچاؤں یا پھر اپنی زندگی۔ زندگی اللہ کا ایک خوبصورت تحفہ ہے، مجھے اسے اسی خوبصورتی سے جینا ہے لیکن کیسے؟

رین اندھیری ہے اور کنارہ دور

چاند نکلے تو پار اتر جائیں

یا رب العزت میرا یہ سفر جس پر میں گامزن ہوں اسے باخیروعافیت مکمل کر دے۔ اس بابرکت مہینے کے  صدقے۔ اے اللہ اس بیماری میں مبتلا تمام مریضوں کو شفائے کاملہ عطا فرما اور اپنی رضا میں ہماری رضا شامل کرنا۔ آمین! آپ سب بھی آمین بول دیں، کیا پتا کس کی آمین قبول ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).