لڑکیاں کرمچ کی گیند نہیں ہیں


ایک دبلی پتلی ڈری سہمی کمزورسی لڑکی لیبر روم سے بلاوے کی منتظر ہے۔
سیزرین ہو گا ڈاکٹر سے بات ہو گئی ہے۔
ارے نہیں بھائی یہ تو نارمل کیس ہے سیزیرین کیسے ہوگا۔
نارمل ہی ہو گا۔
(باہر اس کا میکہ اور سسرال کسی ناچاقی پر دست و گریباں ہیں)

نارمل ہو گا یا سیزرین؟ آزمائش کے اس جان لیوا مرحلے میں بھی وہ سہمی ہوئی لڑکی مستقل کشمکش میں مبتلا اسٹریچر پر لیٹی اپنے مالکوں کی طرف سے کھینچا تانی کے بعد ہونے والے فیصلے کی منتظر ہے۔

آخرکار لیبر روم کا دروازہ کھلا اور ساتھ ہی اس لڑکی کا انتظار ختم پوا۔
ایک مرد مار عورت کی تمیز سے مبرا آواز سنائی دی۔

پیشنٹ کے ساتھ کون ہے؟
جی ہم ہیں۔
میکے والوں میں سے کوئی بولا۔

جی جی ہم ہیں۔ سسرالیوں میں سے آواز ابھری۔
پیسے جمع کروا دیے آپریشن کے؟
جی کروا دیے ہیں۔
رسید لے کر آو آپریشن شروع کرنا ہے۔

جی آپ لوگ آپریشن شروع کریں۔ تسلی رکھیں رقم جمع کروا دی ہے۔ رسید ابھی مل جائے گی آپ کو۔
ڈاکٹر صاحبہ رسید دیکھنے کے بعد ہی آپریشن شروع کریں گی۔ اس مرد مار عورت نے جواب دیا۔
کچھ دیر کی دھکم پیل کے بعد بمع رسید اسے لیبر روم میں موجود قصائی نما عملے کے حوالے کر دیا گیا۔

خاموشی۔
مبارک ہو بیٹی ہوئی ہے۔
کم و بیش بیس منٹ بعد لیبر روم کا دروازہ اس خوشخبری کے ساتھ کھلا۔

کدورتوں کو کچھ دیر کے لیے موخر کر کے دونوں فریقین گلے ملے۔ مبارک باد کا تبادلہ ہوا۔

اب اک اور مرحلے کا آغاز ہوا۔
نومولود کے کان میں اذان کون کہے گا؟
ایک کھینچا تانی کے بعد یہ اعزاز دادا کے حصے میں آیا۔ اس کے ساتھ ہی سب لوگ بچی کے ناز نخروں میں مصروف ہو گے۔

اور وہ بے بس ماں (جسے بچپن سے سواے صبر و برداشت کے کچھ نہیں سکھایا گیا) بستر پر خاموشی سے لیٹے اپنی قسمت کے فیصلے دوسروں کی زبانوں سے سنتی رہی۔
اسکی زندگی کا اہم ترین مرحلہ کہ جس میں سب سے زیادہ اس کے فیصلے کو اہمیت دی جاتی اس کی رائے کو مقدم رکھا جاتا لیکن یہ کیا کہ فیصلہ تو درکنار اسے تو کسی نے مشورے کے لائق بھی نہ سمجھا۔

مگر یہ بھی تو حقیقت ہے کہ یہ سب اس کے لئے کوئی نئی بات تو نہ تھی۔ کمتری کی تو وہ بچپن سے عادی تھی۔
اس کے تمام فیصلے پہلے اس کے باپ کے اختیار میں رہے۔ اس کے بعد یہ اختیار بھائیوں کو منتقل ہو گیا اور آخر میں وہ عمر بھر کے لیے اپنے شوہر کے اختیار میں دے دی گئیی۔

اس کا خیال ہے کہ لڑکیاں کرمچ کی گیند ہوتی ہیں۔ جو ایک خاص عرصے تک باپ اور بھائیوں کے درمیان کھیل کا حصہ بنی رہتی ہیں اور اس کے بعد اس کی باقی کی زندگی میں یہ کھیل سسرال اور میکے کے بیچ جاری رہتا ہے۔ والدین کے گھر میں اسے سکھایا جاتا ہے کہ اپنی خوشی پر بھائی کی خوشی کو کیسے فوقیت دینی ہے۔ اور شادی کے بعد خود کو کس طرح شوہر کی مرضی کے مطابق ڈھالنا ہے۔ مزید یہ کہ اپنے سوا ہر ایک کا خیال رکھنا ہے۔ شکایتوں پر صبر اور صرف صبر کرنا ہے کیوں کہ یہی اچھی بیٹیوں کی نشانی ہے۔

بس اسی لیے اسے لگتا ہے کہ لڑکیاں کرمچ کی گیند ہوتی ہیں۔
لیکن کیا کبھی سوچا آپ نے کہ اپنے اختیارات دوسروں کے حوالے کرنے میں سب سے زیادہ قصور کس کا ہے؟
آپ کا۔ صرف آپ کا۔

کبھی آپ نے سوچا کہ آپ کے باپ بھائی یا سوسائٹی کے اور دوسرے مرد خود پر کوئی زور کیوں نہیں چلنے دیتے؟ کیوں کہ وہ طاقتور ہیں زور آور ہیں با اختیار ہیں مضبوط ہیں۔

آگر آپ کرمچ کی گیند نہیں بننا چاہتیں تو آپ کو بھی مضبوط بننا پڑے گا۔ اپنی ہمت آپ بندھانا پڑے گی۔ اپنے حق کے لئے آواز اٹھانا یو گی۔ دوسروں کو خود پر مسلط ہونے سے روکنا ہو گا۔ حد مقرر کرنا ہو گی۔ اور سب کو اس حد کا پابند کرنا ہو گا۔

تو پھر آج اور ابھی اٹھیے۔ اب تک کھلی آنکھوں سے سب دیکھتی آئی ہیں اب شعور کی عینک لگا کر دیکھئے۔ آپ پر کس کا کتنا اختیار ہونا چاہیے اس بات کا فیصلہ خود کریں۔

اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافی پر حشر کے دن تک چپ سادھے رہنے کے بجاے آواز اٹھائیے۔ روکیئے خبر دار کرنا سیکھیں۔ اپنے آپ کو کم ہمت بے بس اور مظلوم سمجھنا چھوڑ کر طاقتور مضبوط با اختیار مکمل اور ایک آزاد انسان نہ صرف تسلیم کریں بلکہ تسلیم کروائیے۔

آئیے آج ہی پہلا قدم اٹھائیں لیکن وہ پیلا قدم آپ کو خود ہی اٹھانا ہے۔
یاد رکھیں لڑکیاں کرمچ کی گیند نہیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).