مطالعہ پاکستان کیا ہے؟


پاکستان ایک بہت دلچسپ ملک ہے۔ یہاں لوگوں کو باتوں کے توتا مینا اڑانے اور رائی کے پہاڑ بنانے میں بہت مزا آ تا ہے۔ چائے قومی مشروب کی طرح مقبول ہے اور ہر شخص کو چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے کا بہت شوق ہے۔

روز ایک نیا دانشورانہ نعرہ ایجاد ہوتا ہے اور سارا پاکستان، آ نکھیں بند کیے اس بھیڑ چال میں شامل ہو جاتا ہے، کچھ دنوں بعد اسی نعرے کے بالکل مخالف ایک اور نعرہ بلند ہوتا ہے اور وہی بھیڑیں اسی طرح آنکھیں موندے اس دوڑ میں شامل ہو جاتی ہیں۔

ہم لوگوں کے کچھ مقبول ترین موضوعات ہیں۔ جن میں سے ایک، ‘انقلاب’ ہے۔ دوسرا، ‘کرپشن،’ تیسرا، ‘سسٹم کی خرابی’، چوتھا، ‘تعلیم کی کمی’اور اب جدید ترین موضوع ،’مطالعہ پاکستان’ ہے۔ ‘انقلاب’ لانے والوں کو ہم نے اکثر ڈرائنگ روموں میں، انقلابی باتیں کرتے سنا ہے۔ سسٹم کی خرابی پہ رونے والے، ہمیشہ بچوں کو بیوروکریٹ بناتے ہیں، تعلیم کی خدمت کرنے والے اور والیاں، ریڈئینٹ وے کے چاروں قاعدوں کے ذریعے تعلیم عام کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں اور مطالعہ پاکستان کو رونے والے اکثر نے اس سسٹم میں پڑھا ہی نہیں، جہاں ٹاٹ پہ بٹھا کر جھانسی کی رانی اور پانی پت کی جنگیں پڑھائی جاتی تھیں۔

آج جانے کہاں سے پرانے رزلٹ کارڈ نکل آ ئے، دیکھا تو معلوم ہوا کہ میٹرک سے لے کر گریجویشن تک مطالعہ پاکستان میں میرے 80 فیصد نمبر آ تے رہے ہیں۔ بہت غور کیا کہ یا اللہ! اس مضمون میں ایسی کیا گندی گندی باتیں پڑھائی جاتی تھیں کہ آ ج ساری دنیا اس کے خلاف ہے؟

خود پہ شک بھی گزرا کہ اس موذی مضمون سے اتنے لگاؤ کی کیا وجہ تھی اور اس کو پڑھنے سے ذہن میں کہاں کہاں گنجل پڑے ہیں؟ یاد کیا تو ذہن میں آ یا کہ یہ ظالم مضمون، تین حصوں میں منقسم ہوتا تھا، جغرافیہ ، تاریخ اور شہریت ۔

جغرافیے میں سوائے، گرد باد کیا ہوتا ہے ؟ ہوائیں کیوں اور کیسے چلتی ہیں؟ تجارتی ہوائیں کیا ہوتی ہیں اور پاکستان میں تانبے اور کوئلے کے ذخائر کہاں کہاں پائے جاتے ہیں سے زیادہ متعصب بات نظر سے نہ گزری۔ شہریت میں بلدیہ ، قصبہ، تحصیل، ضلع، ڈویژن، وغیرہ وغیرہ تھے۔ بہت سے بہت یہ بتا دیا گیا تھا کہ، ‘خواندہ کیا ہوتا ہے۔؟’

تاریخ کا حصہ اکثر استاد پڑھاتے ہی نہیں تھے، اور اس حصے میں، ‘محمد بن قاسم کی سندھ آ مد’ سے لے کر واسکوڈے گاما کی کالی کٹ کی بندر گاہ تک آ مد، محمود غزنوی، خاندانِ غلاماں کی حکومت، مغلوں کی آ مد، مرہٹوں کی شورش، سکھوں کی حکومت، ایسٹ انڈیا کمپنی کا مقامی رجواڑوں پہ تسلط اور جنگِ آ زادی اس کی ناکامی اور پھر تحریکِ پاکستان وغیرہ شامل ہیں۔

پاکستان، نظامِ تعلیم

مطالعہ پاکستان پہ بڑے بڑے تین اعتراض اٹھائے جاتے ہیں، محمد بن قاسم کو فاتح سندھ کیوں کہا جاتا ہے؟ لٹیرا کیوں نہیں کہتے؟ محمود غزنوی مندر لوٹنے، آ یا تھا، اسے بت شکن کیوں کہا جاتا ہے؟ اورنگ زیب، تنگ نظر متعصب ، پیروں ولیوں کا دشمن تھا اسے ٹوپیاں سی کر گزر بسر کرنے والا، درویش منش کیوں کہا جاتا ہے؟

اعتراض اٹھانے والوں کا خیال ہے کہ پاکستان میں آج تک جو بھی خرابیاں ہو رہی ہیں ان کی بنیاد میں یہ ہی تین غلط فہمیاں کار فرما ہیں۔

مطالعہ پاکستان، میٹرک میں 75 انٹر میں 50 اور گریجویشن میں بھی 50 نمبر کا ہوتا تھا۔ یعنی تاریخ کا سوال، دس یا پندر ہ نمبر کا ہوتا ہو گا۔ خیر سے ہم پاکستانی ایسے تو ہیں نہیں کہ پندرہ نمبر کے سوال کے لیے پورا حصہ تاریخ حفظ کریں گے اور اگر فرض کیجیے کہ کر بھی لیا تو کیا سگنل تو ڑ کے بھاگتے ہوئے ہم خود کو محمود غزنوی محسوس کرتے ہیں؟ بچوں کی تاریخ پیدائش دو سال کم لکھواتے ہوئے، اپنی آ مدن کے گوشوارے غلط بھرتے ہوئے، سڑکوں پہ عورتوں کو گھورتے ہوئے، ہم میں اورنگ زیب کی روح حلول کر جاتی ہے؟

تاریخ کے ہمیشہ ایک سے زیادہ رخ ہوتے ہیں۔ تاریخ فاتح لکھواتے ہیں، تاریخ یہ ہے، تاریخ وہ ہے، تاریخ فلاں ہے، تاریخ ڈھمکاں ہے۔ یہ سب باتیں درست ہیں، تدریس کے مقصد سے تاریخ پڑھاتے ہوئے، کسی بھی شخصیت کے بارے میں خوبیاں یا خامیاں بیان نہیں کرنی چاہییں۔

مسئلہ یہ ہے کہ یہ معترضین، اعتدال پسند نہیں۔ ان کی خواہش یہ ہی ہے کہ ان تینوں شخصیات یا جن جن باتوں پہ انھیں اعتراض ہے، ان سب کو ان کی عینک اور ان کے قلم سے لکھا جائے۔ محمود اور یاز کے تعلقات کے سر بستہ رازوں سے پردہ اٹھائے جائے وغیرہ وغیرہ۔ یہاں آ کے بات کچھ الجھ جاتی ہے۔

بغیر تحقیق کے صرف ذاتی عناد پہ مبنی گفتگو میں الجھنے کی بجائے، واقعی نصاب میں غیر جانبدارنہ مواد کی موجودگی یقینی بنائی جائے۔ یہ کام آ پ کی منتخب نمائندہ حکومت کرتی ہے۔ میں سمجھتی ہوں، تاریخ کے صفحوں میں دفن مردہ بادشاہوں کی غیر نصابی سر گرمیوں پہ اتنا پریشان ہونے کے ساتھ ساتھ اگر ہم ملک میں اور اپنے رویوں میں جمہوریت کو فروغ دیں تو کہیں بہتر ہو گا۔

چلتے چلتے تاریخ کے بارے میں ایک بات میں بھی کہتی جاؤں،’تاریخ سے زیادہ نمک حرام لونڈی کون سی ہو گی؟ جس عہد میں پنپتی ہے اسی کی بد گوئیاں کرتی ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).