کبھی ٹوٹ جاتے ہیں کبھی توڑ دیئے جاتے ہیں


میں نے فضائی میزبان سے پوچھا، جہاز کتنی دیر تک اڑان بھرے گا۔ اس کا کہنا تھا جہاز کے دم والے حصہ میں جو کچن ہے اس میں خرابی کا معلوم ہوا ہے اور عملہ اس کو ٹھیک کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ ہماری پرواز آدھا گھنٹہ کی تاخیر سے روانہ ہوئی۔ ایک دفعہ پھر سفر وسیلہ ظفر ہے۔ منزل دور درشن 14گھنٹے کی دوری پر ہے۔

اک زمانہ کی بات ہے جب میں کچھ عرصہ کے لئے اقوام متحدہ میں ایک نامہ نگار کی حیثیت میں کام کرتا تھا۔ شانتی دیوی سے پہلے ملاقات نیویارک میں ہوئی تھی۔ پندرہ بیس سال پرانی بات ہے۔ ایک ایسا تعلق بنا کہ ہم مسلسل رابطہ میں رہتے ہیں۔ ہم دونوں کا پاک و ہند کی سیاست کے بارے میں تبادلہ خیال رہتا ہے۔ پہلے پہل تو یہ رابطہ ای میل کے ذریعہ رہا پھر اسمارٹ فون نے رابطہ بہت ہی آسان بنا دیا۔

چند دن پہلے میں نے اس کو بتایا کہ میں کچھ دن کے لئے کینیڈا اور امریکہ جارہا ہوں۔ تو اس کاکہنا تھا کہ میں جاتے وقت یا واپسی پر کچھ وقت لندن کے لئے نکالوں۔ وہ آجکل لندن میں ایک این جی او کے لئے کام کررہی ہے۔ میں نے اس سے وعدہ تو کیا ہے کہ لندن میں ملاقات کا سوچا جاسکتا ہے مگر ابھی وعدہ پورا کرنا مشکل ہے۔

میں سوچوں میں گم تھا کہ جہاز میں اعلان ہوا کہ پرواز روانگی کے لئے تیارہے۔ پاکستان کی قومی فضائی کمپنی کے جہاز اس سیکٹر پر عموماً بھرے ہی ہوتے ہیں۔ یہ اس ایئرلائن کا کامیاب روٹ ہے آپ پاکستان سے جہاز میں سوار ہوں اور مسلسل چودہ گھنٹے اور کچھ منٹ کی پرواز کے بعد براعظم نارتھ امریکہ میں لینڈ کر جاتے ہیں۔

ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی امریکہ کے لئے پاکستان ایئرلائن نے اپنی پروازیں بند کردی ہیں۔ ابھی اس روٹ پر کسی اور ایئرلائن کو پرواز کی اجازت نہیں ملی ہے۔ سنا ہے کہ حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ نے پاکستان ایئر لائن کے معاملات پر بھی توجہ دی ہے اور نقصان ہونے کی وجوہات کو تلاش کیا جارہا ہے۔ پی آئی اے میں ملازمین کی تعداد اس وقت کافی فاضل ہے دوسرے یورپ کے کئی شہریوں کے لئے پروازیں بند بھی کر رکھی ہیں۔

پی آئی اے اخراجات میں سب سے زیادہ خرابی ان ملازمین کی وجہ سے شروع ہوئی ہے جو کسی ضابطہ کے بغیر بھرتی ہوئے اور ان کی تنخواہ عام ملازمین کے مقابلہ پر کئی گنا زیادہ ہے۔ اس وقت بھی کئی ایسے ملازمین اہم عہدوں پر کام کررہے ہیں۔ ایسے اخراجات کی وجہ سے خسارہ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ ورنہ جتنے مسافر اس کمپنی کے پاس ہیں۔ ا ن سے تو منافع حاصل کرنا زیادہ مشکل نہیں۔

میاں نوازشریف کے بعض فیصلے باعث زحمت بن رہے ہیں۔ میں ان باتوں میں گم تھا کہ فضائی میزبان کا حکم نامہ ملا۔ بیلٹ باندھ لیں۔ جہاز نے رن وے پر دوڑنا شروع کیا اور چند منٹ کے بعد فضا میں بلند ہوگیا۔ کچھ دیر کی پرواز کے بعد جہاز کے کپتان نے مسافروں سے خطاب کیا اور بتایا کہ 14گھنٹے کی پرواز افغانستان سے روس کے اوپر سے ہوتی ہوئی یورپ میں داخل ہوگی وہاں سے آئس لینڈ اور سمندر پر پرواز کرتے ہوئے امریکہ کے اوپر سے گزر کر ٹرانٹو کے مقامی وقت 4بجے لینڈ کرے گی۔

کپتان صاحب کا یہ پہلا اور آخری رابطہ تھا اس کے بعد فضائی میزبانوں نے مسافر حضرات کو کھانے کی نوید سنائی۔ جہاز میں تکیوں کی تعداد کافی کم تھی اور اکثر لوگ اس سے محروم تھے۔ دوسرے کمبل بھی کچھ ہی مسافروں کو مل سکے۔ لوگوں کو کھانا دیا گیا مگراس کا معیار بھی خاصا ناقص لگا اور بے چارہ عملہ بھی بے بسی کا اظہارہی کرتا رہا۔

اب پرواز کو تین گھنٹے ہونے کو تھے۔ اکثر لوگ کھانے کے بعد سونے کی تیاری کررہے تھے۔ میرے ہمراہ جو صاحب برا جمان تھے وہ بھی شکایت کررہے تھے کہ سیٹ آرام دہ نہیں ہے مگر اب گزارہ تو کرنا تھا۔ وہ کینیڈا کے سینئر سٹیزن تھے۔ ان کو سرکار پاکستان سے بہت ہی شکایتیں تھیں، مجھ سے پوچھنے لگے کہ آپ کیا کرتے ہیں۔ میں نے ان کو بتایا ’’میں پسینہ بہاتا ہوں‘‘ وہ ذرا اور حیران ہوئے۔

میں نے ان سے شکایت کی نوعیت پوچھی وہ بتانے لگے کینیڈا میں ایک سفارت خانہ ہے اور ایک قونصل خانہ ہے جو ٹرانٹومیں ہے۔ اگر کبھی جانے کا اتفاق ہو تو آپ کو بہت ہی مایوسی ہوگی۔ خصوصاً پاسپورٹ کے سلسلہ میں متعلقہ عملہ نا تجربہ کار اور بداخلاق ہے وہاں بھی سفارش اور دیگر ذرائع چلتے ہیں۔ ہمارے سفیر جو ہائی کمشنر کہلاتے ہیں وہ طارق عظیم صاحب ہیں ایک زمانہ میں سابق صدر جنرل مشرف کے بہت ہی قریب تھے بلکہ ابھی بھی ہیں۔ وہ دو ملکوں کے شہری ہیں۔

ہمارے لئے ان کا فرمان ہے دو ملکوں کی شہریت کو سرکار پاکستان پسند نہیں کرتی۔ آپ لوگ کینیڈا میں ہیں۔ اس لئے صرف ان کے شہری بن کر رہیں اور خود وہ برطانیہ اور پاکستان کے شہری ہیں اور کیا معلوم کب وہ کینیڈا کے شہری بھی بن جائیں۔

میں نے ان سے پوچھا اس میں شکایت والی کونسی بات ہے۔ ہاں شکایت کی بھی سن لیں۔ پاکستانی پاسپورٹ کی فیس زیادہ ہے۔ نیپ کون کارڈ تارکین وطن کے لئے نادرا نے شروع کیا ہے۔ اس کی وجہ سے کینیڈا کے پاسپورٹ پر پاکستانی ویزا کی ضرورت نہیں پڑتی۔ پہلے پہل ٹرانٹو کے قونصل خانہ میں نادرا کے لوگ تھے۔ وہ قومی شناختی کارڈ اور نیپ کون کارڈ وغیرہ بناتے ہیں جب نواز لیگ کی سرکار آئی، سفارت خانہ نے نادرا کا ڈیسک بند کردیا ہے اور کسی قسم کا کارڈ نہیں بنایا جاتا اور اگر آپ نے اپنے معاملات کے لئے پاکستان میں کسی کو اپنا مختار بنانا ہو تو اس کا طریقہ کار بہت ہی پیچیدہ اور پراسرار سا ہے۔ ہمارا سفارت خانہ آسانی کی بجائے مشکلات پیدا کرتا ہے اور اس کا کوئی علاج بھی نظر نہیں آتا ۔

ان کی بات میں بہت وزن تھا اور مجھے اندازہ ہے کہ بیرون ملک پاکستانی اپنے سفارت خانوں کی کارکردگی سے خوش اور مطمئن نہیں ہیں اور ہماری سرکار بھی ان معاملات پر توجہ نہیں دیتی۔ ایک طرف ہمارے تارکین وطن زرمبادلہ کی شکل میں بہت بڑا سرمایہ پاکستان کو دیتے رہتے ہیں۔ مگر ان کی کوئی اہمیت اور حیثیت نہیں ہے اور دوسرے کچھ لوگ ہنڈی اور دیگر ذرائع سے بھی پاکستان میں رقم منتقل کرتے ہیں ان پر کوئی قانون نہیں ہے۔

میں سوچ ہی رہا تھا کہ میرے ہم سفر بولے۔ آپ کو ہماری شکایات کا اندازہ نہیں۔ ان دو سیٹوں کے لئے میں نے عملہ کو خوش کیا ہے تب اگلے حصہ میں مجھے سیٹ دی گئی ہے اور مجھے پتا ہے کہ آپ کی سفارش ہوگی۔ میں مسکرایا اور بولا نہیں۔ میں لیٹ ہوگیا تھا اور صرف یہ سیٹ دستیاب تھی اور مل گئی۔ تو کہنے لگے آپ نے تو اپنوں کی حمایت کرنی ہے۔

میں نے ان سے کہا آپ اس کے لئے شکایت بھی کرسکتے ہیں۔ وہ ذرا سے غصہ میں آگئے اور بولے شکایت اور وہ بھی ان کی شکایت کس سے کروں۔ آپ پاکستان میں شکایت کا حق نہیں رکھتے اس کی وجہ ہے کہ آپ احتساب کو پسند نہیں کرتے۔ ملک بھر میں کرپشن کا شور ہے۔ ملک کے لوگ کرپشن کو پسند کرتے ہیں۔ کرپشن آپ کے ہاں راستہ بناتی ہے اور آسانی ہوئی ہے۔ مجھے آپ ہی بتائیں اب تک کرپشن پر کسی اعلیٰ عہدہ دار کو سزا ملی۔آپ کے ہاں قانون نرم اور عدالت کمزور ہے۔

اس بھاشن کے بعد ان کا غصہ قدرے کم ہو چکا تھا۔ میں بھی ان سے متفق تھا ہمارے درمیان کچھ دیر خاموشی رہی۔ پھر انہوں نے میری طرف دیکھا۔ میں ذرا سا مسکرایا تو وہ بھی مسکرائے اور بولے۔ آپ ناراض تو نہیں۔ میں خاموش رہا۔ کہنے لگے پاکستان میں انتخابات کا موسم شروع ہے۔ ہم تارکین وطن کے ووٹ کا مسئلہ توجہ طلب ہے۔ ہم کو ووٹ کی اجازت بیرون ملک نہیں ہے اور نہ ہی اسمبلی میں ہماری کوئی نمائندگی ہے۔

اس کے لئے بھی سوچنے کی ضرورت ہے۔

ہمارے سیاسی لیڈر خود بھی تارکین وطن کی حیثیت سے گزار چکے ہیں۔ اس لئے تارکین وطن کو اس سہولت کے لئے سیاسی جماعتوں کی حمایت کی ضرورت ہے۔ مگر وہ پاکستان میں ایک دوسرے کے گندے کپڑے اترانے میں لگی رہتی ہیں۔ اپنے گندے کپڑے دھوتے نہیں۔ جدید دور ہے۔ مشین کی مدد سے انتخابات کو شفاف بنایا جاسکتا ہے۔ مگر کرے کون۔

اب کہا جارہا ہے کہ 2013ء کے انتخابات مشکوک تھے۔ مگر کوئی کارروائی نہ ہوسکی۔ اس طرح تو ملک نہیں چلتا۔ اب آپ کی سپریم کورٹ فیصلہ کن اقدامات کررہی ہے۔ تو سیاسی لوگ اس سے خوش نہیں۔ سب سے زیادہ مایوسی میاں نوازشریف سے ہوئی۔ آپ صفائی دینے سے کیوںگھبراتے ہیں بس ایک نیا شوشہ چھوڑ دیا ہے۔ ووٹ کو عزت دو، اس جملہ کا مطلب ہے ووٹر کو خراب کرو اور اس کی پرچی کو تعویز بنالو اور خود پیر صاحب بن کر مریدوں کی زندگی خراب کرو۔

وہ ایک دفعہ پھر غصہ میں آچکے تھے۔ میں خاموشی سے ان کی نادر باتیں سنتا رہا۔ مجھے اگلے کئی گھنٹے ان کے ساتھ گزارنے ہیں اور بحث کی گنجائش نہیں۔ مگر ان کی باتوں سے انکار بھی ممکن نہیں۔ دعا صرف یہ ہے کہ پاکستان کو بدلنے کے ساتھ ساتھ ہم اپنے آپ کو بھی بدلنے پر تیار کریں۔ یہ مرحلہ خاصا مشکل ہے۔ میں سوچوں میں گم تھا کہ وہ صاحب بولے۔ آپ کونسی کتاب پڑھ رہے ہیں میں نے ان کو بتایا مستنصر حسین تارڑ کی کتاب ہے اور لاہور کے بارے میں ہے۔ میں نے ان سے پوچھا آپ کو کتابوں کا شوق ہے۔ وہ کہنے لگے۔ بہت ہے اور شاعری کا بھی۔

میں نے کہا۔ کیا مطلب آپ شاعر ہیں وہ فوراً بولے نہیں نہیں۔ صرف شاعری پڑھنے کا اور ہاں ایک شعر سناتا ہوں

کانچ جیسے ہوتے ہیں ہم جیسے تنہا لوگوں کے دل
کبھی ٹوٹ جاتے ہیں کبھی توڑ دیئے جاتے ہیں

بشکریہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).