خواتین، حیض اور ماہِ رمضان


رمضان کے شروع ہوتے ہی دفتر میں موجود واحد کیفے بند کر دیا گیا ہے۔ یہ کیفے وہ واحد جگہ تھی جہاں بریک کے اوقات میں بیٹھا جا سکتا تھا۔ بریک تو اب بھی کر سکتے ہیں لیکن اپنی سیٹ کے علاوہ بیٹھنے کی کوئی جگہ میسر نہیں۔ اپنی ہی سیٹ پر فارغ بیٹھے رہیں تو اردگرد کے لوگ فوراً اپنے نمبر بنوانے اندر پہنچ جاتے ہیں اور پھرآپ کے ساتھ کیا ہوگا یہ اندر بیٹھے صاحب کے موڈ پر منحصر کرتا ہے۔

لڑکے تو اپنی صنف کا فائدہ اٹھاتے ہوئے باہر سڑک پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ادھر ادھر جھانکتے پھرتے ہیں۔ جہاں مخالف جنس چلتی نظر آئے اس پر نظریں جما دیتے ہیں اور پھر نظریں اس کی نقل و حرکت کے ساتھ حرکت کرتی رہتی ہیں۔ ان میں سے جو روزہ نہیں رکھتے وہ کوئی نہ کوئی کونہ ڈھونڈ کر کسی بیکری سے لایا ہوا برگر یا پیزا کھا لیتے ہیں۔ ان سے کوئی زیادہ سوال جواب بھی نہیں کرتا کہ آخر کو کماؤ پوت ہیں، سڑی دھوپ میں موٹر سائیکل چلا کر نوکری پر آتے ہیں اور پھر روزہ بھی رکھتے ہیں، یہ احسان کون سا کم ہے۔ اب ایسے میں توانائی کی تو ضرورت پڑتی ہی ہے۔ (ناٹ آل مین)

اب اگر خواتین کی طرف آئیں تو انہیں ماں باپ سے لے کر شوہر اور بھائی کے علاوہ گلی میں سبزی پیچنے جو آدمی آتا ہے اسے بھی اپنے قول و فعل کا جواب دینا ہوتا ہے۔ انہیں رمضان میں کھاتا پیتا دیکھ کر مرد تو مرد بعض عورتوں کی بھی آنکھیں حیرانی سے باہر نکل آتی ہیں۔ ان خواتین کی آنکھیں واپس اندر کرنے کے لیے انہیں بتانا پڑتا ہے کہ ان کی صنف کو مہینے میں ایک بار حیض ہوتے ہیں جن کے دوران وہ نہ نماز پڑھ سکتی ہیں اور نہ ہی روزہ رکھ سکتی ہیں۔ نماز تو انہیں معاف کر دی جاتی ہے، روزے بہرحال بعد میں پورے کرنے ہوتے ہیں۔ اب اگر روزہ نہیں ہے تو بلاوجہ بھوکا پیاسا رہنے کا کیا فائدہ؟ اور پھر شرع میں کیسی شرم؟

لیکن اب حالات ایسے نہیں رہے۔ اب کہیں سے بھی رضوی ٹولے کا کوئی سپاہی نکل سکتا ہے اور آپ کے ہاتھ میں پکڑی بوتل کی جگہ آپ کا سر کاٹ کر پکڑا سکتا ہے یا کسی کا ایمان اتنا کمزور ہو سکتا ہے کہ آپ کو کھاتا پیتا دیکھ کر ٹوٹ جائے۔ ان کا ایمان بچانے کے لیے خواتین کو عام دنوں میں اپنا جسم ایک بڑی چادر سے ڈھانپنا پڑتا ہے اور رمضان میں حیض کے دنوں میں زبردستی بھوکا پیاسا بھی رہنا پڑتا ہے۔ زبان سوکھ جاتی ہے، حلق میں کانٹے چبھ رہے ہوتے ہیں لیکن اپنے بیگ میں رکھی ہوئی پانی کی بوتل نکال کر اس میں سے ایک گھونٹ پانی نہیں پی سکتیں کہ ہال کے آخر میں بیٹھے بابا جی کے جذبات مجروح ہو جائیں گے۔ الگ جگہ ڈھونڈی جائے تو وہاں بھی آ کر تانک جھانک ہوسکتی ہے اور اپنے جذبات زبردستی مجروح کروائے جا سکتے ہیں۔

بعض گھروں کی خواتین حیض کے دوران بھی معمول کی طرح گھر والوں کے ساتھ سحری و افطاری کرنے کے علاوہ پانچ وقت کی نماز پڑھنے کی بھی مکمل اداکاری کرتی ہیں تاکہ گھر کے کسی مرد کو ان کی حالت کا علم نہ ہو سکے۔

حیض کے علاوہ اور بھی کئی صورتیں ہیں جب مرد و خواتین روزے سے نہیں ہو سکتے۔ ہو سکتا ہے ان میں سے کوئی غیر مسلم ہو، ہو سکتا ہے کسی کو بیماری کی وجہ سے ڈاکٹر نے روزہ رکھنے سے منع کیا ہو، کچھ بچے بھی ہو سکتے ہیں جن پر ابھی روزے فرض نہیں، ہو سکتا ہے کوئی خاتون حاملہ ہوں اور انہیں روزے رکھنا منع کیا گیا ہو یا ہو سکتا ہے کوئی اپنی مرضی سے روزہ نہ رکھنا چاہتا ہو، آخر کو سب نے اپنا حساب خود دینا ہے یا آپ بروزِ قیامت کسی کے اعمال کا جواب دینے خود آگے آجائیں گے؟ وجہ جو بھی ہو ہم اس ماہِ مبارک میں جس کا مقصد شاید ہم میں صبر و تحمل پیدا کرنا ہے کسی کو بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔

یاد رہے ہم وہی لوگ ہیں جو اپنے ہی ملک میں رہنے والے ہم سے مختلف لوگوں کو تو ان کے حقوق نہیں دیتے لیکن جب فرانس میں مسلمان خواتین کے نقاب پر پابندی لگتی ہے تو سب سے پہلے انسانی حقوق اور شخصی آزادی ہمیں ہی یاد آتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).