روزہ کا اصل مقصد کیا ہے؟


اللہ تعالیٰ انسان سے جو سب سے بڑی توقع رکھتا ہے اس میں سر فہرست انسان کی جانب سے اللہ کا تقویٰ اختیار کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بنی نوع انسان کو مخاطب کر کے تقویٰ کی طرف توجہ دلائی۔ سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 283 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ترجمہ ”اور اللہ سے ڈرو جبکہ اللہ ہی تمہیں تعلیم دیتا ہے۔ “ اسی طرح سورۃ النسا کی آیت نمبر 2 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ترجمہ ”اے لوگو! اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو“۔ اور سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 103 میں فرماتا ہے۔ ترجمہ“ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا ایسا تقویٰ اختیار کرو جیسا اس کے تقویٰ کا حق ہے۔“

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تقویٰ کیا ہے۔ تقویٰ کے معانی کسی چیز سے رک جانا، پرہیز کرنا کے ہیں۔ اگر تقویٰ کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہو تو اس کی تشریح اس طرح کی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہدایات کی روشنی میں نیک کاموں کو اختیار کرنا اور برے کاموں سے پرہیز کرنا ہی دراصل تقویٰ ہے۔ تقویٰ اختیار کرنے والے کو متقی کہا جاتا ہے۔ متقی شخص محض اللہ کی خوشنودی کی خاطر برے کاموں سے بچتا اور نیک کاموں میں قدم آگے بڑھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 14 میں فرماتا ہے۔ ترجمہ ”بلاشبہ اللہ کے نزدیک تم میں سے سب سے معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ “

اب دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان متقی کیسے بنے۔ وہ کیا اوامر اور عوامل ہیں جو ایک انسان کو تقویٰ کی راہوں پر لے کر جانے میں ممد و معاون ہو سکتے ہیں۔ جب ہم قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے والوں کو تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کی ہے اور ساتھ ساتھ وہ اوامر بھی بتا دیے جن کو اختیار کرنے سے انسان متقی بننے کی طرف اپنا سفر شروع کر سکتا ہے۔ انہیں میں سے ایک امر، ایک عبادت روزہ بھی ہے۔

اللہ تعالیٰ سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 184 میں فرماتا ہے ”اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر روزے اسی طرح فرض کر دیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو“۔ روزہ اللہ کے حکم سے صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک اپنی جائز جسمانی ضروریات یعنی کھانا پینا اور جسمانی تعلقات قائم کرنے سے باز رہنے کا نام ہے۔

جب ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے روزہ فرض کرنے کا مقصد ایمان لانے والوں کو تقویٰ کی راہوں پر قدم بڑھانے کا موقع فراہم کرنا ہے تو پھر ذہن میں ایک اور سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ روزہ رکھنے سے انسان کیسے متقی بن جاتا ہے اور متقی دراصل کون ہوتا ہے۔

اس کا جواب بھی ہمیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہی مرحمت فرمایا ہے۔ چناچہ سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 178 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ترجمہ ”نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے چہروں کو مشرق یا مغرب کی طرف پھیرو۔ بلکہ نیکی اسی کی ہے جو اللہ پر ایمان لائے اور یوم آخرت پر اور فرشتوں پر اور کتاب پر اور نبیوں پر اور مال دے اس کی محبت رکھتے ہوئے اقربا کو اور یتیموں کو اور مسکینوں کو اور مسافروں کو اور سوال کرنے والوں کو نیز گردنوں کو آزاد کرانے کی خاطر۔ اور جو نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور وہ جو اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں جب وہ عہد باندھتے ہیں اور تکلیفوں اور دکھوں کے دوران صبر کرنے والے ہیں اور جنگ کے دوران بھی۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے صدق اختیار کیا اور یہی ہیں جو متقی ہیں۔ “

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پہلے ایمان لانے والوں کے بارے میں بتایا کہ وہ اللہ پر، یوم آخرت پر اور فرشتوں اور کتاب اور ابنیا کرام علیہ السلام پر ایمان لاتے ہیں۔ اور جب وہ ایمان لے آتے ہیں تو پھر اللہ کے حکم کے مطابق اپنا مال نیکی اور بھلائی کے کاموں میں خرچ کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کا مخاطب سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 184 ہے جس میں ان لوگوں کو روزے کی فرضیت کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے۔

روزہ میں جسمانی ضروریات پر روک لگا کر روحانی ضروریات پر زور دیا گیا ہے۔ ہم روزہ سے حاصل ہونے والی برکات کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ایک روزہ دار کو حاصل ہونے والی ذاتی برکات اور دوسری وہ اجمتاعی برکات جو ماہ رمضان کے دوران بنی نوع انسان کو حاصل ہوتی ہیں۔

ذاتی طور پر حاصل ہونے والی برکات میں عبادات کے مواقع کا معمول سے بڑھ کر حاصل ہونا سر فہرست ہے۔ روزہ دار کی طبع عمومی طور پر عبادات کی طرف مائل ہوتی ہے۔ مسجدیں نمازیوں سے بھر جاتی ہیں۔ نماز تراویح کا اہتمام ہوتا ہے جس میں دوران رمضان قرآن کریم کا دور مکمل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ نماز تہجد بھی ادا کی جاتی ہے جو قرب الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے۔ روزہ دار خود بھی قرآن کا مطالعہ کرتا ہے اور قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان عبادات کی وجہ سے طبیعت زیادہ سے زیادہ نیکی کی طرف مائل ہوتی ہے۔ اور انسان اپنے عہدوں کو پورا کرنے طرف زیادہ متوجہ ہوتا ہے اور وعدوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

اس کے علاوہ وہ اجتماعی برکات ہیں جو ماہ رمضان کی بدولت نازل ہوتی ہیں۔ روزہ میں انسان اللہ کی رضا کی خاطر صبح سے شام تک بھوکا، پیاسا اور مجرد رہ کر صبر اور شکر کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یہ معمولی اور عارضی تکلیف ایک مومن کو ان تکالیف کی طرف متوجہ کرتی ہے جن سے عمومی طور پر بنی نوع انسان نبرد آزما ہے۔ روزہ دار دکھوں اور تکالیف برداشت کرنے والوں کے دکھ اور درد کا احساس اپنے اندر محسوس کرتا ہے اور جب وہ اپنی تکلیف کو صبر اور شکر سے کاٹتا ہے تو اس کی طبع بنی نوع انسان کی تکالیف کا مداوا کرنے کی طرف بھی مائل ہوتی ہے۔ چناچہ ہم عمومی مشاہدہ کرتے ہیں کہ دنیا بھر میں ماہ رمضان میں مسلمانوں کی جانب سے زکوٰۃ اور خیرات کا ایک عظیم سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور یہ تمام عطیات بہرحال بنی نوع انسان بشمول اقربا، یتامیٰ، مساکین، مسافروں، مجبوروں اور ہر قسم کی بھلائی کے کاموں پر خرچ ہوتے ہیں۔

اور پھر جب روزہ دار ان تمام اوامر سے گزرتا ہوا اللہ کے تقویٰ کے حصول کی طرف بڑھتا ہے تو پکار اٹھتا ہے ”(اے اللہ) تیری ہی ہم عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے ہم مدد چاہتے ہیں۔ ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔ ان لوگوں کے راستے پر جن پر تو نے انعام کیا۔ جن پر غضب نازل نہیں ہوا اور جو گمراہ نہیں ہوئے۔ “ ترجمہ سورۃ الفاتحہ آیات نمبر 5 تا 7۔

انعام یافتہ لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سورۃ النسا کی آیت نمبر 70 میں فرماتا ہے۔ ترجمہ ”اور جو بھی اللہ  اور اس رسول کی اطاعت کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو ان لوگوں کےساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے۔ (یعنی) نبیوں میں سے، صدیقوں میں سے، شہیدوں میں سے اور صالحین میں سے۔ اور یہ بہت ہی اچھے ساتھی ہیں۔ “

پھر اس دعا کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ متقیوں کو ایک خوش خبری عطا فرماتا ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 3 میں فرماتا ہے۔ ترجمہ ”یہ ”وہ“ کتاب ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ ہدایت دینے والی ہے متقیوں کو۔ “ یعنی متقیوں کو ہدایت دینے والی کتاب کے عظیم الشان معانی اور معارف سے آگہی ملتی ہے۔ ایک متقی جب قرآن کریم میں ڈوب جاتا ہے تو پھر معانی کا ایک جہاں اس پر کھلتا ہے۔ وہ اللہ کی نشانیوں پر غور کرتا ہے تو بے ساختہ پکار اٹھتا ہے۔ ”اے ہمارے رب۔ تو نے ہرگز یہ بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ “ سورۃ آل عمران آیت 192۔

یہی وہ مقصد ہے جس کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ نے مومنین کو تقویٰ کی راہوں پر قدم اٹھانے کی تاکید کی اورتقویٰ کے حصول کے لیے روزے کی فرضیت ایمان والوں پر کی گئی۔

خوش قسمتی سے ایک بار پھر ہم ماہ رمضان کی برکات سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم رمضان المبارک کو محض ایک فرض عبادت سمجھ کر بے دلی سے پورا کرنے کے بجائے اس مقصد کے حصول کی کوشش کریں جس مقصد کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ بابرکت ایام ہمارے لیے مہیا فرمائے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ماہ رمضان میں اللہ کی رحمت، برکت اور فضل کا صحیح وارث بنائے۔ آمین۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad