شکارپور کا تو اچار مشہور تھا، یہ لڑکے کہاں سے آ گئے؟


اس تحریر کے ساتھ منسلک تصویر دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔یہ خوشی کے آنسو ہیں۔ اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ چند نوجوان تقریبا ایک کروڑ روپے کے ساتھ وکٹری کا نشان دکھا کر بتا رہے ہیں کہ انہوں نے جگر کے عارضے میں آخری اسٹیج پر پہنچنے والے اپنے دوست فہد منگی کے علاج کے لئے صرف ایک مہینے میں ایک کروڑ روپے چندہ جمع کرکے ثابت کیا ہے کہ کرپٹ ترین حکمرانی والی سندھ میں ایماندار ترین نوجوان آج بھی بستے ہیں۔

شکارپور شہر کے ان غریب اور مڈل کلاس نوجوانوں کے پاس لاکھوں روپے جمع ہوئے مگر ان پر ایک روپیہ بھی خرد برد کا الزام نہیں لگا۔ میں نے چوبیس گھنٹے میں دوسری مرتبہ اس موضوع پر اسی لئے قلم اٹھایا ہے کہ ملک کے سب سے کرپٹ ترین صوبے میں جہاں پیپلز پارٹی کی دس سال سے بنا شرکت غیرے حکومت ہے، جہاں اٹھارویں ترمیم کے بعد اربوں کھربوں کا بجٹ آیا جہاں سندھ کی ہر چیز، تعلیم، صحت، پینے کا پانی، دوائیں، اسپتال، روڈ، گلیاں، ٹرانسپورٹ، میونسپلٹیاں، کچھ بھی نہیں چھوڑا گیا۔ سب برباد ہیں، سب کو لوُٹا گیا ہے بغیر کسی خوف کے لو ٹ گیا اور لوٹ مار جاری ہے، جہاں ہیپاٹئیٹس کی مریضوں کی دوائیں تک بیچ کر کھا گئے، حد تو یہ ہے کہ بلڈ کی ایک تھیلی میں سے آدھی آدھی کر کے پانی ڈال کر دو کر کے بیچی جاتی ہیں۔ یہ کرپشن کھلے عام جاری ہے۔

پیپلز پارٹی کے عہدیدار، ایم پی ای، ایم این ای وزیر مشیر جو کنگلے تھے ارب پتی بن گئے ہیں انٹی کرپشن ادارے بمع نیب سندھ میں ملک کی سب سے بڑی کرپشن اور کرہٹ لوگوں کو صرف دکھاوے کے لئے پکڑتے ہیں اور پھر اوپر کے احکامات سے چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسے ماحول میں یہ مٹھی بھر نوجوان اس سندھ کا آئینہ ہیں جواصلی اورایماندارسندھ ہے۔ جو عدم تشدد، امن، صوفی ازم، بے غرضی ، شاہ لطیف، سچل، سامی، بیدل، صوفی شاہ عنایت، جی ایم سید، شیخ ایاز کی سندھ ہے۔ یہ غریب مگر بڑے دل کے ایماندار نوجوان ہیں، جو بد امنی، بے روزگاری، وڈیرے، جاگیردار، کرپٹ سیاستدان سے سامنا کرتے ہوئے اپنی غربت اور تنگ دستی کے باوجود زندگی میں جدہجہد جاری کیئے ہوئے ہیں۔ اور یہ ہی امید کی کرن اور سندھ کا روشن مستقبل ہیں

میرے یہ آج کے الفاظ ان کی اسی ایمانداری کے لئے ہیں جو سندھ کا اصل چہرہ ہے جس کے منہ پرآج کل کرپٹ حکمرانوں، ان کے نظر نہ آنے والے آقاؤں، کرپٹ نوکر شاہی اورکرپٹ سرکاری ملازموں نے کالک مل دی ہے۔ پیپلز پارٹی کے موجودہ دس سالہ حکومت میں پارٹی کی آصف علی زرداری سے شروع ہونے والی قیادت نے کھلے عام اپنے عہدے داروں، ورکروں کو یہ پیغام دیا کہ پیسا بناؤ، بس۔ لوٹو، پیسا ہی الیکشن میں کام آئے گا اور کچھ نہیں اور اپنے رہنماؤں کی اس ہدایت پر اوپر سے نیچے تک من و عن لبیک کہا گیا ہے اور سندھ کے ایک ایک انچ کو لوٹا گیا ہے۔ جو پیسا سندھ کے عام لوگوں کی فلاح بہبود پر خرچ ہونا تھا وہ دو چار سو خاندانوں نے، ان کے کچھ ہزار کارندوں نے لوٹ لیا ہے اور سندھ اسی مرگ کی سی کیفیت میں ہے۔

مجھے حیرت اس بات پر بھی ہے کی سندھی قوم نے شکارپور جیسے شہر میں ان نوجوانوں پر اعتبار کر کے صرف ایک مہینے میں ایک کروڑ روپے چندہ دے دیا۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قوم کا ضمیر اب بھی زندہ ہے صرف کرپٹ حکمرانوں نے انہیں یرغمال بنایا ہو ہے۔ میں سندھ کے نوجوانوں کی اکثریت سے پر امید ہوں، اگر الیکشن میں ان حکمرانوں کو پولیس، پیسے، وڈیرے، کرپٹ افسر شاہی، کرپٹ کلرک اور ریاست کے نظر نہ آنے والی قوتوں کی آشیرواد اور مدد حاصل نہ ہو تو پورے سندھ میں یہ غریب، مڈل اور لور مڈل کلاس مگر ایماندار نوجوان ان وڈیروں کی ضمانتیں ضبط کروادیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).