رمضان کے یہ روح پرور نظارے


 

کسی بھی معاشرے میں معاشی عدم مساوات ہی سرمایہ دار کے سرمائے میں بے انتہا اضافے کی ضامن ہوتی ہے اس لیے غریب عوام کی معاشی آزادی کسی صورت میں بھی سرمایہ دار کے لیے قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ سرمایہ ہر طرح کی اخلاقیات، مذہب یا سرحدوں کی قید سے ماورا ہوتے ہوئے کسی بھی معاشرے میں پانی کی طرح تیزی کے ساتھ اپنا راستہ خود بناتا چلا جاتا ہے۔ اس کے آگے بند باندھنا کسی طرح جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ اس عمل کے نتیجے میں سرمائے کے جمع ہونے پر ایک خاص مخلوق ’اشرافیہ‘ وجود میں آتی ہے اور پھر اسی اشرافیہ میں سے مزید کچھ ’مخیّر حضرات‘ بھی برآمد ہونے لگتے ہیں۔ جب سے ماہ رمضان سماج کے فیاض و مخیّر حضرات کے ’ہتھے‘ چڑھا ہے تب سے اس کی برکتوں میں بھی بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ عام آدمی کی پورے سال کی بچت یا کفایت شعاری بجائے ماہ رمضان میں بڑھنے کے اُلٹا خسارے میں چلی جاتی ہے۔ یعنی نفس اور شیطان اس ماہ میں کنٹرول میں آنے کی بجائے مزید بے قابو ہو جاتے ہیں۔

چند حضرات کے نزدیک ٹیکس ایمنسٹی سکیم (کالے دھن کو سفید کرنے کا عمل) کی طرح اللہ تعالیٰ بھی سال میں ایک مرتبہ اپنی مخلوق کو سابقہ گناہوں کے کفارہ اور آئندہ صراط مستقیم پر چلنے کے لیے ماہ رمضان کی شکل میں ایک نادر موقع عنایت فرماتا ہے جس کا ٹیکس سکیم کی طرح ہم ناجائز فائدہ اٹھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔گیارہ مہینوں کی طویل نیند سے بیداری کے بعد جب سرمایہ دار کا ضمیر ہڑبڑا کر اٹھتا ہے تو معاشرے میں ایک عجب بے ہنگم کیفیت کا سماں بندھ جاتا ہے۔ سال بھر میں اپنے محنتی کارکنوں کے استحصال اور ٹیکس چوری سے جمع شدہ سرمائے سے یہ اشرافیہ ماہ رمضان میں غریبوں اور مسکینوں کی دل جوئی کے لیے کم از کم دو بنیادی ’نیکیوں‘ کا اہتمام پورے خشوع و خضوع سے کرتے ہیں۔

پہلے نمبر پر تو’مستحق افراد‘ کی افطاری کے لیے عظیم الشان تقریبات کے ایسے روح پرور نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں کہ دیکھنے والے دنگ رہ جاتے ہیں اور مخالفین منہ میں انگلیاں دبائے نہیں رہ پاتے بلکہ کئی سڑکوں پر تو ٹریفک تک جام ہو جاتی ہے۔ دوسرے نمبر پر سماج میں اپنی نیک نامی اور اثر و رسوخ کے بڑھاوا کے لیے غرباء میں ایک ماہ کے راشن بانٹنے کی رسم بھی ایک ٹاپ ٹرینڈ بن چکی ہے۔ اس ’ٹرینڈ‘ کو اپنائے بغیر ’صاحب استطاعت‘ لوگ اس مبارک مہینے میں چین کی نیند بالکل نہیں سو سکتے۔ ان کے اس فیاضانہ عمل سے ’مستحق افراد‘ کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ سال کے باقی گیارہ ماہ کے دوران بھی ان کے اندر بھکاری بن کر جینے کی عادت مزید پختہ ہو جاتی ہے۔

سال کے بقیہ گیارہ ماہ عوام کے یہ مجبور ومسکین جتھے کہاں سے اپنے اور اپنے بچوں کی پیٹ کی آگ کو بجھا سکیں گے۔ اس سے ان مخیر حضرات کو ذرہ برابر بھی فکر نہیں کیونکہ ان بیچاروں کا ضمیر انہیں اس سے زیادہ کی اجازت ہی نہیں دیتا اور نہ ہی وہ خود بھی اسے کسی اور زاویہ سے سمجھنا چاہتے ہیں۔

ہمارے سماج میں معاشی عدم مساوات میں ہو ش ربا اضافے کی وجہ سے ان طوِیل قطاروں میں اب سفید پوش خواتین و حضرات بھی اپنے سبز شناختی کارڈ ہاتھ میں پکڑ کر بے بسی کی تصویر بنے چہرے چھپانے کی ناکام کوشش کرتے دکھائی دینے لگے ہیں۔’حصول رزق‘ کے دوران اکثر روایتی جلد بازی اوردھکم پیل کی وجہ سے چند ناتواں افراد کی جان تک چلی جاتی ہے۔ پتہ نہیں اللہ کے ہاں ایسے افراد شہید کا درجہ حاصل کر پائیں گے یا رزق کے حصول میں لالچی کا خطاب دے کر انہیں اتفاقیہ موت کے زمرہ میں شامل کیا جائے گا اور پھر ہماری ریاست کے حالات کے تناظر میں ہمارا آج کا حق و باطل کا سب سے اہم صرف یہی مسئلہ زیر بحث بن جائے گا۔

مندرجہ بالا ’فلاحی اقدامات‘ اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ پاکستانی قوم پوری دُنیا میں سب سے زیادہ ٹیکس چوری کرنے کے ساتھ ساتھ زکوٰۃ و خیرات دینے میں بھی پہلے یا دوسرے نمبر پر ہے۔ اس سارے معاملے میں مزید ستم ظریفی یہ ہے کہ مظلوم عوام کے بھیڑ بکریوں کے یہ عظیم ریوڑ ایسے مواقع پر ’مخیر حضرات‘ کی دولت میں دن دگنی اور رات چگنی اضافے کے لیے گڑگڑا کر دعائیں کرتے ہیں تاکہ ہر سال انہیں ایسے ہی خیرات میں امداد ملتی رہے۔ اس سے آگے وہ اب سوچنے کے قابل ہی نہیں رہے اور یہی ہمارے سرمایہ دار کی سب سے بڑی کامیابی ہے جس کے حصول کے لیے اُس نے اپنے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ان ’معزز مخیر حضرات‘ کا سال بعد اچانک رحم دل ہونے کی وجہ سے مارکیٹ میں اشیائے خوردنوش کی قیمتوں کو پر لگ جاتے ہیں اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ ہمارے سفاک تاجر ان اشیاء کی مصنوعی قلت پیدا کر کے مزید ثواب کماتے ہوئے افطاری کے بعد تراویح میں پہلی صفحوں پر کھڑے ہونے کے حقدار قرار پاتے ہیں۔

اپنی ریاست کے معروضی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے بالفرض عوام کی ’فلاح و بہبود‘ کے اس تصور کو وقتی طور پر صحیح بھی مان لیا جائے تو پھر بھی ہمارے مذہب میں کسی ضرورت مند کی امداد کے طریقہ کار کو اتنا زیادہ مخفی رکھنے کا حکم ہے کہ ’اگر آپ دائیں ہاتھ سے کسی کی مددکریں تو تمہارے اس اچھے عمل کی تمہارے بائیں ہاتھ کو خبر بھی نہ ہونے پائے۔‘ لیکن کیونکہ یہاں تو تقریباً ہر معاملے میں گنگا نے الٹ ہی بہنا ہے اس لیے اتنی واضح تنبیہ کے باوجود یہ سارا ’فلاحی پروگرام‘ اکثر محض دکھاوے یا صرف اور صرف اپنی شخصیت کی پروموشن تک ہی محدود ہو چکا ہے جیسا کہ ایک اچھا اور نیک کام بھی غلط طریقہ سے انجام دینے سے اپنی تمام افادیت کھو دیتا ہے۔ معذرت کے ساتھ اسی تناظر میں اگر آپ دیکھیں کہ ظلم و جبراور بربریت سے حاصل کی گئی زمین پر آپ چاہے دُنیا کی سب سے بڑی اور خوبصورت مسجد ہی کیوں نہ بنا لیں، پھر بھی اللہ کے دربار میں شاید ہی آپ کی اس عظیم کاوش کو درجہ قبولیت حاصل ہو۔ یہ صرف اور صرف اپنے ضمیر بلکہ اللہ کو دھوکہ دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں اگر آپ سمجھنا چاہیں تو۔

اس ساری بحث کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ معاشرے میں عوام کی فلاح و بہبود کے لیے آپ کسی نیک کام میں حصّہ نہ ڈالیں۔ اگر آپ کی نیت صاف ہے تو صرف اس نیک عمل کی شکل بدلنے کی ضرورت ہے کہ ’مستحق افراد‘ کو مزید بھکاری بنانے کی بجائے ان کو اس قابل کیوں نہ بنایا جائے کہ وہ معاشرے میں اپنا مثبت تعمیری رول ادا کر سکیں اور آہستہ آہستہ اس قابل ہو جائیں کہ کسی کے آگے انہیں ہاتھ پھیلانے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔ صرف ایسے تعمیری عمل سے ہی معاشرے میں حقیقی معاشی

مساوات کا آغاز ہو سکتا ہے جس طرح ہمارے معاشرے میں ’اخوت، نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کامیابی کے ساتھ انہیں خطوط پر لوگوں کی مدد کر رہی ہے۔ چونکہ فلاح کے اس طریقہ کار میں بہت محنت درکار ہوتی ہے جس کے ہم بالکل عادی نہیں اور نہ ہی اس میں کوئی کمپنی کی مشہوری ہوتی ہے، اس لیے معاشرے میں ایسے لوگ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں۔

اس سارے معاملے کو مذہب کے ساتھ نتھی کرکے فوراً اپنے مخالف کا منہ بند کردیا جاتا ہے اس لئے ہمارے معاشرے میں مکالمہ ختم ہونے کی وجہ سے عدم برداشت کا یہ خطرناک رجحان تیزی سے فروغ پا رہا ہے کہ مذہب کے غلط استعمال پر بحث کو دراصل مذہب پر تنقید تصور کر لیا جاتا ہے جس کے سب سے بڑے ذمہ دار انتہا پسند لبرل اور مذہبی جنونی طبقہ خود ہے جو کہ دونوں ہی ایسے کسی بھی حساس ایشو پر بحث کے دوران جذبات میں آ کر اپنے اصل ٹریک سے اُتر جاتے ہیں اور پھر خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اگر ہمارے دین میں حقوق اللہ سے پہلے حقوق العباد کو ترجیح دی گئی ہے تو پھر کیا عجب معاملہ ہے کہ ہمارے معزز مبلغین کرام کا سارا وقت عوام کو مذہب کے فروعی مسائل اور ان کو جزیات کی من مانی تشریحات میں الجھانے،سمجھانے میں کیوں لگا رہتا ہے؟ شاید اسی لیے اٹھانویں فیصد مسلم اکثریتی ریاست میں ہمارے مذہب کو ہر لمحہ ننانوے فیصد خطرہ درپیش رہتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).