اردونصابات: غریب کی جورو سب کی بھابھی


ان نصابات کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ سکول اور کالج کی سطحوں پر یہ تمام نصابات، ہدایت آموز (Didactic)  ہیں۔ اوّل ایسے متون منتخب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جو صریحاً ہدایت آموز ہوں۔ شبلی، سرسید، نذیر احمد، حالی کی بہ طور خاص وہ تحریریں منتخب کی جاتی ہیں، جو ناصحانہ نوعیت کی ہیں۔ انھیں پڑھتے ہوئے طالب علم ان مشاہیر کو معلمِ اخلاق تو تصور کرلیتے ہیں، تخلیق کار اور دانش ور نہیں۔ مثلاً اس وقت پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ میں نویں جماعت کی اردو میں نذیر
احمد کے ناول توبتہ النصوح سے ایک حصہ ” نصوح اور سلیم کی گفتگو“ کے عنوان سے شامل ہے۔ اس میں سلیم کو ایک ایسے نوجوان کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو بڑوں کی ہر ہدایت کو فوراً قبول کرلیتا ہے، اور خو دسوچنے کی زحمت سے بچا رہتا ہے۔ حالاں کہ اسی ناول میں نصوح اور کلیم کی گفتگو بھی شامل ہے۔ کلیم، سلیم کے برعکس ہے۔ وہ اپنے باپ سے صاف کہتا ہے کہ وہ بالغ ہے اور اپنی رائے رکھتا ہے۔ اس حصے کو کسی اردو نصاب میں یہ حصہ شامل نہیں کیا جاتا۔ وجہ بے حد سادہ ہے۔ یہ نصابات، طالب علم کے سامنے کوئی ایسی مثال پیش نہیں کرنا چاہتے، جس میں نوجوان کردار خود اپنی رائے باور کرانے کی سعی اور جدوجہد کرتے ہوں۔ اردو نصابات کی تیاری یا انھیں پڑھانے میں، طالب علم کا ایک خاص تصور پیش نظر رہتا ہے۔ وہ سوچنے والی مخلوق نہیں، بلکہ آنکھیں بند کرکے ہر بات پر آمنا و صدقنا کہنے والا، منفعل وجود سمجھا جاتاہے۔ ہماری رائے میں نصابات کا ہدایت آموز ہونا بجائے خود غلط نہیں، کیوں کہ تعلیم ایک طرف آدمی کو کسی ہنر یا علم کا ماہر بناتی ہے تو دوسری طرف اسے اس امر کا احساس بھی دلاتی ہے کہ اس کا جینا مرنا سماج کے دیگر لوگوں کے ساتھ ہے۔ اگر ہدایت آموزی سماجی شرکت اور رواداری کے قوی احساس کو پیدا کرنے تک محدود رہے تو ا س میں حرج نہیں، لیکن جب وہ سماجی شرکت کے نام پر طالب علموں سے آزادانہ سوچنے، اور اپنی رائے ظاہر کرنے کی جرات سلب کر لے اور انھیں صرف وہ چند اصول، قاعدے، نظریات رٹا دے، جنھیں کچھ مقتدر اداروں یا افراد نے وضع کیا ہوتا ہے، اور ان کے ذریعے ذہنوں کو قابومیں رکھنے کا غیر معمولی طور پر مﺅثرنفسیاتی طریقہ ایجاد کیا ہوتا ہے تو ہدایت آموزی ایک سخت ناپسندیدہ شے بن جاتی ہے۔ اردو نصابات میں ہدایت آموزی اسی طرح کی ایک ناپسندیدہ شے کے طور پر موجودہے۔ اس کی مثال میں پریم چند کے افسانے پنچایت سے یہ ٹکڑا دیکھیں جو جماعت نہم کی اردو کی کتاب میں شامل ہے:

”تعلیم کے مقابلے میں انھیں استاد کی خدمت پر زیادہ بھروسا تھا۔ وہ کہا کرتے تھے، استاد کی دعا چاہیے، جو کچھ ہوتا ہے، فیض سے ہوتا ہے، اور اگر الگو پر استاد کے فیض یا دعاﺅں کا اثر نہ ہوا تو اسے تسکین تھی کہ تحصیل علم کا کوئی دقیقہ اس نے فروگذاشت نہیں کیا، علم اس کی تقدیر ہی میں نہ تھا۔ شیخ جمعراتی خو ددعا اور فیض کے مقابلے میں تازیانے کے قائل تھے اور جمن پر اس کا بے دریغ استعمال کرتے تھے“۔

اس بات کی بلاشبہ تعریف کی جانی چاہیے کہ سکول کی سطح پر پریم چند کوشامل کیا گیا ہے۔ ورنہ ضیا کے زمانے میں تمام ہندو اردو ادیبوں کا نصابات میں داخلہ بند تھا۔ افسانے کا یہ حصہ رمزیہ طنزیہ(Ironical)  سمجھا جا سکتا ہے، مگرسمجھے کون؟ یہ نصابات کیسے پڑھائے جاتے ہیں، اس کا اندازہ ہر سبق کے آخر میں موجود سوالات سے کیا جاسکتا ہے۔ اس افسانے کے آخرمیں دیے گئے سوالات میں کہیں یہ سوال شامل نہیں کہ کیا تعلیم ذاتی کوشش سے حاصل ہوتی ہے، یا محض استاد کی خدمت سے؟ پریم چند نے سادہ انداز میں باور کرایا ہے کہ استاد کی خدمت سے الگو تعلیم حاصل نہیں کرسکا، نیز اسے استاد کی خدمت اور فیض میں یقین رکھنے کا یہ صلہ ملا کہ اس کے استاد کو اس پر تازیانے چلانے یعنی تشدد کا جواز مل گیا۔ یہ افسانہ پڑھانے والے اساتذہ کی انا کو بھی تسکین حاصل ہوتی ہے، اور ان کی اتھارٹی مستحکم ہوتی ہے، نصاب بنانے والوں اور پڑھانے والوں کی بلا سے کہ اس طرح طالب علموں کی رائے سازی کی صلاحیت بری طرح کچلی جاتی ہے۔

ادب، متوازی اور متبادل طریقے فراہم کرتا ہے۔ حقیقت کا متبادل تصور، تخیل کی صورت میں حقیقت تک پہنچنے کا متبادل طریقہ، استعارے کی صورت میں اظہار کا متبادل طریقہ۔ یہ سب متبادلات حسن کی تخلیق کا ذریعہ بھی ہیں، اور نئے خیالات خود خلق کرنے کی صلاحیت کو نشوونما دینے کا وسیلہ بھی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہ سب، ان بعض تحریروں میں موجود ہے، جو نصابات میں شامل کی جاتی ہیں، مگر انھیں پڑھاتے ہوئے ہدایت آموزی کا پہلو اس درجہ غالب رہتا ہے کہ ان کی طرف دھیان ہی نہیں جاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے نصابات اور ان کی تدریس کے طریقے طالب علموں کو اپنے پاﺅں پر کھڑے ہونے، یعنی خود سوچنے، ہر نئی اور غیر متوقع صورت حال کا فوری حل تلاش کرنے کی ترغیب نہیں دیتے، الٹا انھیں پاﺅں سے محروم کرتے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں آئیڈیالوجیاں بھر دی جاتی ہیں، آئیڈیالوجی پر سوال ا ٹھانے، خود داخلی آزادی حاصل کرنے، یعنی باوقار انداز میں انسانی سطح پر زندگی بسر کرنے کی آرزو ان میں پیدا نہیں کی جاتی۔

اگر اردو اسباق کی مشقیں دیکھیں تو ان میں جو سوالات پوچھے جاتے ہیں، وہ ہمیں اردونصابات پڑھانے کے طریقوں سے آگاہ کرتے ہیں، اور ان توقعات سے آشنا کرتے ہیں جو ایک سبق پڑھنے کے بعد طالب علم سے قائم کی جاتی ہیں۔ طالب علم سے کہا جاتا ہے کہ وہ خلاصہ تیار کرے، یا سبق کے کسی حصے کی وضاحت کردے، یا سبق میں درج باتوں کو دہرا دے۔ چناں چہ اردو کے مطالعے سے طلبا کی تخلیقی صلاحیتیں بیدار نہیں ہوتیں، طالب علموں سے صرف ان کی یادداشت کا امتحان لیا جاتا ہے۔ بہتر حافظے والے، بہتر تخلیق کار اور بہتر سوچنے والے بھی ہوں، یہ قطعاً ضروری نہیں۔ عہد وسطیٰ میں رواج تھا کہ طالب علم کو اوّل ہزاروں اشعار یاد کرنے کو کہا جاتا ہے، لیکن جب وہ خود شعر کہنا چاہتا تو اسے وہ سب اشعار بھلانے کے لیے کہا جاتا۔ ’لرننگ ‘ کے بعد ’ان لرننگ ‘ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے کا عام اصول ہے۔ جسے ذہانت کہتے ہیں، وہ کسی اچانک صورتِ حال میں بر محل تدبیر اختیار کرنے کی صلاحیت کا نام ہے۔ ادب کی تدریس ذہانت کی صلاحیت کو بڑھا سکتی ہے، بشرط یہ کہ وہ طالب علموں کو اس امر کا ہدف دے کہ وہ ادب کی تخیلی دنیا اور اپنی حقیقی دنیا میں رشتے تلاش کریں، اور دونوں کو ایک دوسرے کی مدد سے سمجھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
8 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments