نواز شریف کو یہ رتبہ بلند مبارک ہو


یہ مئی کا مہینہ تھا جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے آزادی کے طلب گار ہندوستانیوں کی مسلح جدوجہد کو ’غدر‘ کا نام دیا اور اس تحریک آزادی کو کچلنے کے لیے خون کے دریا بہا دیئے۔ منگل پانڈے جو اس جدوجہد آزادی کا پہلا شہید تھا، اس نے اور اس کے ہندو اور مسلمان ساتھیوں نے انقلاب کا جھنڈا بلند کیا اور شہید وطن ہوئے، ان 85 ناموں کی فہرست ہمیں مولانا غلام رسول مہر کی کتابوں میں ملتی ہے۔ مولانا نے 1857 کے واقعات کو ’’جنگ آزادی‘‘ کے عنوان سے پکارا۔

انگریزوں نے صرف یہی نہیں کیا کہ اس عالم آشوب کو ’غدر‘ کا نام دیا بلکہ ’غداروں‘ کی فیکٹریاں لگالیں۔ ہمارے یہاں آئین کی شق نمبر 6 غداروں کو پھانسی کی سزا دینے کا حکم دیتی ہے۔ ان دنوں کچھ لوگ بعض لوگوں کے حوالے سے بہت بے تابی کے ساتھ اس شق پر عمل کا مطالبہ کررہے ہیں۔ انگریزوں کے زمانے میں 1973 کا آئین نہیں تھا، اسی لیے انھوں نے شہر در شہر سولیاں گاڑیں اور جدوجہد آزادی کرنے والوں کو پھانسیاں دیں، توپ دم کیا۔ ہزارہا ہندوستانی مادر وطن پر نثار ہوئے۔

انگریزوں نے جنھیں ’غداری‘ کے منصب پر فائز کیا ان میں سے ایک بہادر شاہ ظفر تھا۔ وہ گرفتار کیا گیا اور انگریزوں کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ وہ جو شعر کہتا تھا اور جس نے انگریز افسران پر بہت سے کرم کیے تھے، اسے نہایت توہین آمیز انداز میں انگریز کی عدالت میں لایا گیا اور پھر اس الزام میں رنگون جلاوطن کردیا گیا کہ بادشاہ ہند نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کی تھی اور ’غدر‘ برپا کرنے کا مرتکب ہوا تھا۔

بہادر شاہ ظفر ’غدار‘ تھا، اس کے بیٹے قتل کیے گئے اور ان کے سر کاٹ کر بادشاہ کو ’ناشتے‘ کے دسترخوان پر پیش کیے گئے۔ علامہ فضل حق خیرآبادی، اپنے عہد کا جید عالم، غالب کا دیوان مرتب کرنے والا، ’ثورۃ الہند‘ لکھنے والا’غدار‘ ٹھہرا اور کالاپانی جلاوطن کیا گیا، وہیں پیوند خاک ہوا۔

ہندوستان کے چند دوسرے ’غداروں‘ کی ایک فہرست قرۃ العین حیدر نے اپنے افسانے ’چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا‘ میں درج کی ہے۔ وہ فہرست کچھ یوں ہے کہ خودی رام باسو: پھانسی 1908۔ پرفلاچکی: جیل میں خودکشی 1908۔ اشفاق اﷲ: پھانسی 1929۔ بھگت سنگھ: پھانسی 1931۔ پرتی لتادویدا: خودکشی 1932۔ راجندر لہری: پھانسی 1927۔ گوپی ناتھ ساہا: پھانسی 1924۔ جتیش گوہا: پولیس کے مظالم سے مرے 1930۔ دیب پرشاد گپتا: گولی مار دی گئی۔ ماتانگنی ہاجرہ: پولیس کی گولی سے شہید 1942۔ سدھیرکمار بوس: جزائر انڈمان (کالاپانی) میں بھوک ہڑتال سے مرے۔

یہ اور ان جیسے بہت سے جری جی دار اس لیے جیل گئے کہ وہ اپنے وطن کی آزادی کے لیے لڑتے تھے اور ان کے وطن پر قبضہ کرنے والے انھیں ’غدار‘ کہتے تھے، تشدد کا نشانہ بناتے تھے اور پھانسی چڑھاتے تھے۔ اسے کہتے ہیں الٹی گنگا بہنا۔ یہ صرف انگریز بہادر نے ہی نہیں کیا۔ ان کے بعد آنے والے کالے انگریز بھی ان ہی کے نقشِ قدم پر چلے۔ آزادی کا ثمر جنھیں ملنا چاہیے تھا، وہ حاشیوں پر دھکیلے گئے اور گورے انگریزوں کے جانشین کالے انگریز اقتدار کی بساط پر چوسر کھیلتے رہے۔

شاہی قلعے میں حسن ناصر کی ہڈیاں توڑی جاتی رہیں، اسے گم نام قبر میں دفن کیا گیا۔ ایاز سموں اور نذیر عباسی ’غدار‘ ٹھہرے اور جام ساقی بھی ’غدار‘ انڈین ایجنٹ، اسے تشدد کی آخری حدوں کو پہنچاؤ، اسے ذہنی بیمار بنانے کی کوشش کرو۔

لیکن میں نے بات ڈھنگ سے نہیں کی۔ تاریخ کو شروع سے بیان نہیں کیا۔ سنسر سے ہمارے مقتدرین کو اتنی محبت کہ بانی پاکستان کی تقریر کو شایع نہ کرنے کے درپے ہوگئے۔ ہوسکتا ہے انھیں بانی پر غداری کا گمان گزرا ہو۔ داد دیجیے ڈان کے بنگالی مدیر کی استقامت کو کہ وہ تقریر کسی کاٹ چھانٹ کے بغیر شایع ہوئی اور گزشتہ 70 برس سے اس کے حوالے دیئے جاتے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر آزادی ملی تو اس کے چند دنوں بعد خیبرپختونخوا میں ڈاکٹر خان صاحب کی منتخب حکومت اس لیے برطرف کردی گئی کہ اس کا تعلق مسلم لیگ سے نہیں تھا۔

اس کے بعد سے ہمارے یہاں ’غداروں‘ کی کھیتی کچھ اس طور لہلہائی کہ آنکھوں کو یقین نہیں آتا۔ خان عبدالغفار خان جنھوں نے خدائی خدمت گار کی تحریک شروع کی۔ اہنسا کی بات کرتے تھے، اسی لیے ہمارے یہاں طنزاً انھیں، سرحدی گاندھی‘ کہا گیا۔ ’غدار‘ کا لیبل ان کی پیشانی پر چسپاں کیا گیا، عمر بھر انڈین ایجنٹ کہلائے اور زندگی قیدوبند میں گزاری۔ چند دنوں سے ان کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہے۔ چھ سات برس کی اندرا پریہ ورشنی، خان عبدالغفار خان کی گود میں بیٹھی مسکرا رہی ہیں۔

یہ تصویر اگر کچھ دنوں پہلے آگئی ہوتی تو ہمارے حکمران اسے بھی خان عبدالغفار خان کی ہندو دوستی، وطن دشمنی اور غداری کے حساب میں درج کرتے۔ سندھ کے نامور دانشور، سیاستدان اور متعدد کتابوں کے مصنف جی ایم سید جنھوں نے سندھ اسمبلی سے قیام پاکستان کی قرارداد منظور کرائی تھی، وہ بھی ’غدار‘ اور ’انڈین ایجنٹ‘ ٹھہرے۔ موت آنے تک زندگی جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزاری۔

پاکستان کی تحریک جب چل رہی تھی تو مسلم لیگ کے اکابرین کا آزادی تحریر و تقریر پر بہت اصرار ہوتا تھا، لیکن یہ تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ آزادی کے فوراً بعد ادبی جریدے ’سویرا‘ پر 6 ماہ کی پابندی اس لیے عائد کی گئی کہ اس میں فیض احمد فیض کی نظم ’’سحر‘‘ شایع ہوئی تھی جو بعد میں ’صبح آزادی‘ کے نام سے منظرعام پر آئی۔ لکھے ہوئے حروف پر پابندی کا یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ منٹو کے افسانے ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ پر پابندی لگی۔ مئی 1949 میں پاکستان کے موقر جریدے ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ پر پابندی لگادی گئی۔

حکومت پاکستان ترقی پسند ادیبوں سے خوف زدہ تھی، اسی خوف کے تحت انجمن ترقی پسند مصنفین پر پابندی لگی۔ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان ممنوع قرار پائی۔ مارچ 1951 میں راولپنڈی سازش کیس کا شور اٹھا۔ ملک میں خوف وہراس کی فضا پھیلائی گئی۔ گرفتار ہونے والوں میں سید سجاد ظہیر، فیض احمدفیض، کیپٹن ظفراﷲ پوشنی اور دوسرے کئی ترقی پسند ادیب اور شاعر شامل تھے۔ ان تمام لوگوں کے سروں پر پھانسی کا پھندا جھول رہا تھا۔ اس مقدمے کی صرف پاکستان میں ہی نہیں ’دنیا‘ میں شہرت ہوئی۔ یہ تمام لوگ منٹگمری جیل اور سینٹرل جیل حیدرآباد میں رکھے گئے۔ آخرکار بری ہوئے اور ان پر کوئی الزام ثابت نہ ہوسکا۔

پاکستان میں ’غداروں‘ کی فہرست اتنی طویل ہے کہ جس کی نہ حد ہے اور حساب۔ بلوچوں کو قرآن پر جان کی امان دے کر پھانسی چڑھا دیا گیا۔ ون یونٹ کی مخالفت کرنے والے سب ہی لوگ غدار ٹھہرائے گئے۔ ملک غلام جیلانی جو شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ سے وابستہ تھے، انھوں نے مشرقی پاکستان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف یکہ وتنہا احتجاج کیا، گرفتار ہوئے، پس زندان بھیجے گئے۔ وہ بھی ’غدارِ پاکستان‘ تھے۔ ان کی بیٹی عاصمہ جیلانی نے اپنے باپ کی رہائی کے لیے مقدمہ لڑا۔

عاصمہ جیلانی بعد میں عاصمہ جہانگیر کے نام سے مشہور ہوئیں۔ انھوں نے اور ان کی بہن حنا جیلانی نے پاکستان میں انسانی حقوق کی سربلندی اور عورتوں کے حقوق کے لیے بے مثال جدوجہد کی لیکن ہر دوسرے چوتھے روز ’غدار‘ اور ’انڈین ایجنٹ‘ کہلائیں۔

ہم نے غداری کے سرٹیفکیٹ چھاپنے کی ایک فیکٹری لگا رکھی ہے۔ اپنے جمہوری اور انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والا شخص بنگالی ہو، سندھی ہو، پشتون یا پنجابی اور بلوچ ہو ’غدار‘ ہے، ’انڈین ایجنٹ‘ ہے اور موت کا حق دار ہے۔ ہمارے یہاں صرف افراد ہی نہیں اخبار، رسائل و جرائد اور کتابیں بھی ’غدار‘ ٹھہرائی گئیں۔ ان میں فیض صاحب کی نظم ’صبح آزادی‘ اگست 1947 اولیت رکھتی ہے۔ حبیب جالب کا مجموعہ ’سر مقتل‘ بھی اسی قبیل میں آتا ہے۔

قرۃ العین حیدر کے ناول ’آگ کا دریا‘ پر اس قدر غدر مچایا گیا اور انھیں اس تواتر سے ’انڈین ایجنٹ‘ کہا گیا کہ انھوں نے پاکستان کو چھوڑ کر ہندوستان واپس چلے جانے میں ہی عافیت جانی۔ پاکستان کی فضا کو محسوس کرکے ساحر لدھیانوی بھی واپس ہندوستان چلے گئے۔ استاد بڑے غلام علی خاں جدی پشتی قصور کے رہنے والے تھے لیکن انھوں نے اسی میں بھلائی سمجھی کہ ہندوستان چلے جائیں اور وہیں اپنی زندگی بسر کریں۔

پاکستان میں خواجہ ناظم الدین، سہروردی، فاطمہ جناح، مجیب الرحمان، ذوالفقار علی بھٹو، ولی خان، عطااﷲ مینگل، بزنجو، خیربخش مری، بے نظیر بھٹو کے بعد مبارک ہو نوازشریف بھی غداروں کی فہرست میں شامل ہوگئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).