سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کی بات کرنے والوں کے خلاف منظم مہم چلائی جا رہی ہے


سعودی خاتون جنھوں نے سعودی عرب میں خواتین کو ڈرائیونگ کا حق دلوانے کے لیے مہم کی سربراہی کی تھی، اب دعویٰ کر رہی ہیں کہ سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کی بات کرنے والے سماجی کارکنان کے خلاف ایک نئی مہم چلائی جا رہی ہے جس کا مقصد انھیں بدنام کرنا ہے۔

منال الشریف نے یہ بات ملک میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے سات کارکنان کی گرفتاری کے بعد کی ہے۔

آسٹریلیا سے بات کرتے ہوئے منال الشریف نے کہا کہ انھیں انٹرنیٹ پر جان کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور ان کا خیال ہے کہ یہ ایک منظم انداز میں کیا جا رہا

ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ حملے اسی نوعیت کے ہیں جو ان پر تب کیے گئے جب انھوں نے خواتین کو ڈرائیونگ کا حق دلوانے کی مہم شروع کی تھی۔

منال الشریف نے ٹویٹ میں کہا کہ ’ 2011 میں مئی 19 کو میں نے خوبار میں ڈرائیونگ کی تھی اور مجھے بغیر کسی سنوائی لہ عورت ہوتے ہوئے ڈرائیونگ کرنے کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی ۔۔۔ اور 2018 میں تم لوگ عورت ہوتے ہوئے آواز اٹھانے پر جیل میں ڈال رہے ہو۔‘

https://twitter.com/manal_alsharif/status/997617659222020096

https://twitter.com/manal_alsharif/status/998116395383586816

یاد رہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں خواتین کو سعودی عرب میں گاڑی چلانے کی اجازت حاصل ہوگی۔ تاہم ان سات کارکنان کی گرفتاری کے بعد ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے حوالے سے ترقی پسندی اور اعتدال پسندی کے دعوے شک میں پڑ گئے ہیں۔

ادھر ان گرفتاریوں کے بارے میں سرکاری بیانات جن میں حقیقی طور پر تو ان کارکنان پر غیر ملکی قوتوں کے ساتھ کام کرنے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے، کی وجہ سے حالات اور زیادہ کشیدہ ہوگئے ہیں۔

منال

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی کارکنان کو بدنام کرنے کی اس مہم کی مذمت کی ہے۔

یاد رہے کہ سعودی عرب نے خواتین کے حقوق پر آواز اٹھانے والی کارکن لجين الهذلول کو ایک مرتبہ پھر گرفتار کر لیا ہے۔ انہیں اس سے پہلے ڈرائیونگ پر پابندی کی خلاف ورزی کرنے پر 73 دن کے لیے حراست میں رکھا گیا تھا۔

حکام نے ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ هذلول کو گرفتار کیوں کیا گیا ہے۔

انسانی حقوق کے ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق لجين الهذلول کو چار جون کو دمام میں کنگ فہد انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ادارے کا کہنا ہے کہ هذلول کو نہ وکیل تک رسائی دی گئی ہے اور نہ ہی فیملی سے ملنے دیا گیا ہے۔

هذلول کو اس سے پہلے سنہ 2014 میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ گاڑی چلا کر متحدہ عرب امارات سے سعودی عرب میں داخل ہونے کی کوشش کر رہی تھیں۔

دنیا میں سعودی عرب وہ واحد ملک ہے جہاں خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی ہے۔

سعودی عرب میں خواتین کا گاڑی چلانا غیر قانونی نہیں ہے لیکن لائسنس صرف مردوں کو جاری کیے جاتے ہیں اور سرعام گاڑی چلانے والی خواتین کو گرفتاری یا پولیس کی جانب سے جرمانے کا خطرہ رہتا ہے۔

سنہ 2015 میں پہلی مرتبہ ملک میں خواتین کو ووٹ دینے یا انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی تھی اور اس سال نومبر میں هذلول نے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا، انہیں بطور امیدوار تو تسلیم کر لیا گیا لیکن بعد میں بیلٹ پیپر پر ان کا نام ہی شامل نہیں کیا گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp