عمران خان: پانامہ لیکس نیزکمیشن کے بعد کیا ہو گا


\"shanilaپانامہ لیکس پر برپا ہونے والا طوفان کس کروٹ بیٹھے گا یہ تو آنے والا وقت ہی ثابت کرے گا لیکن اس لیکس نے عمران خان کی مردہ سیاست میں جان ڈال دی ہے۔ پچھلے سال کے دھرنے کے بعد سے تحریک انصاف بہت سے اختلافات اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہورہی تھی کہ اس لیکس نے عمران خان کو پھر سے ایک دفعہ میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا دیا  ہے جس کی وجہ سے پارٹی کے اندرونی معاملات کچھ عرصے کے لئے لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوگئے ہیں۔ عمران خان پانامہ لیکس کو اللہ تعالی کا سوموٹو قرار دیتے ہیں اور پچھلے سال وہ جس ایماپئر کی انگلی اٹھنے کا انتظار کرتے رہے تھے بقول ان کے وہ انگلی اٹھ ہی گئی اور وہ ایماپئر، اب معلوم ہوا، خالق کائنات کی ذات برحق تھی۔ فانی انسان خواہ مخواہ وسوسوں اور قیاس آرائیوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔

پانامہ لیکس کے آنے کے بعد وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں ریٹائرڈ جج کی زیر نگرانی ایک کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا جو کہ نہ صرف ان کے بیٹوں بلکہ باقی  کے دوسوسے زائد لوگوں کی تحقیقات کرے گا۔ عمران خان نے حسب روایت اس کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ کر دیا اور ساتھ ہی یہ شرط بھی رکھ دی کہ وزیراعظم اس لیکس کے آنے پر استعفی دے۔ عمران خان نے یہ بھی اعلان کیا کہ اگر ان کا مطالبہ نہ مانا گیا تو وہ رائے ونڈ میں دھرنا دے گئے۔ مئی 2013 کے انتخابات کے بعد بھی عمران خان نے نتائج کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اپنا رویہ ایسی ہی احتجاجی سیاست والا رکھا۔ ان کا کہنا تھا کہ نوازلیگ نے دھاندلی کے ذریعے ان کا مینڈیٹ ان سے چھین لیا ہے۔ عمران خان اس وقت بھی یہ مطالبہ کرتے رہے کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن بنایا جائے جو دھاندلی کے معاملے کی تحقیقات کرے۔

گزشتہ انتخابات کے ایک برس بعد 20014 کے اگست میں عمران خان نے یہ مطالبہ نہ ماننے پر لانگ مارچ کا اعلان کردیا۔ لانگ مارچ کے شروع ہونے سے پہلے وزیراعظم نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے یہ مطالبہ ماننے کا عندیہ دے دیا۔ لیکن عمران خان نے اس وقت اپنے زعم میں اس کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے وزیراعظم کے استعفی کا مطالبہ کردیا کہ وزیراعظم کے ماتحت یہ کمیشن منظور نہیں اور اسلام آباد میں دھرنا دے دیا کہ جب تک وزیراعظم استعفی نہیں دیں گے یہ دھرنا ختم نہیں ہوگا۔ دھرنے کی ناکامی پرآخر کار عمران خان اپنے استعفی کے مطالبے سے پیچھے ہٹ گئے اور کمیشن کے مطالبے پر رضامندی ظاہر کردی۔ کمیشن اس وقت کے چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں بنا۔ تمام پارٹیاں ثبوتوں کے ساتھ پیشں ہوئیں اپنے موقف کا دفاع کیا لیکن نتیجہ عمران خان کی توقع کے برعکس رہا۔ عمران خان چونکہ معاہدے کے تحت ان نتائج کو ماننے کے پابند تھےاس لئے کھل کر تنقید تو نہ کی لیکن ڈھکے چھپے لفظوں میں طنز کے تیر چلاتے رہے۔

آج پھر وہی صورت درپیش ہے عمران خان میں نہ مانوں والی کیفیت میں ہیں۔ ابھی عدلیہ پچھلی عزت افزائی بھولی نہیں ہے کہ اس کو پھر سے ایک تحقیقات میں الجھایا جا رہا ہے۔ ویسے یہ بھی عمران خان کی سیاست کا وطیرہ رہا ہے کہ پہلے وہ ہر شخص کی تعریف کرتے ہیں اور جب وہاں سے ان کی مرضی کے فیصلے نہ ملے تو اس شخص پر اتنی سنگ باری کرتے ہیں کہ کیا کوئی شیطان پر کرتا ہو گا۔ جسٹس ریٹائرڈ فخرالدین جی ابراہیم کی تعیناتی پر سب سے زیادہ عمران خان نے خوشی کا اظہار کیا لیکن انتخابات میں شکست کے بعد سارا نزلہ اس شریف النفس انسان پر گرا۔ ریٹائرڈ چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک میں بھی عمران خان پیش پیش رہے جب تک وہ پیپلز پارٹی کے خلاف سوموٹو لیتے رہے وہ ان کے ہیرو لیکن انتخابات میں ناکامی پر جب انہوں نے عمران خان کی خواہش پر نوازلیگ کے جیتنے کا سوموٹو نہیں لیا تو وہ شریک دھاندلی ہو گئے۔ چونکہ اس وقت وہ چیف جسٹس کی کرسی پر فائز تھے تو الزام ریٹرنگ اور ڈسٹرکٹ آفسران پر ڈالتے رہے ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد کھل کر گولہ باری شروع کر دی جی دار جو بہت تھے ۔ اور جسٹس ناصرالملک کے ساتھ جو ہوا وہ تو ابھی حال ہی کی بات ہے۔ ان کے بھی گن گائے جاتے رہے۔ کمیشن کی کارروائی کے دوران عمران خان ان سے بہت مطمئن بھی تھے تعریف بھی کرتے تھے لیکن حسب روایت جب نتائج ان کے مرضی کے نہ آئے تونظریہ ضرورت کا نام دے دیا۔ آج بھی ان کی زبان یہ گل افشانی کررہی تھی کہ ریٹائرڈ ججوں کو ہڈی ڈال دی جاتی ہے تو انصاف کیسے ہوگا۔ اس صورت حال میں کون سا معزز جج تحقیقات کے لئے راضی ہو گا۔ اور تو اور چیف جسٹس صاحب نے بھی یہ فرما دیا ہے کہ تحقیقات کرنا ہمارا کام نہیں۔ ویسے بھی اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ نتیجہ اگر عمران خان کے حسب مرضی نہ آیا تو وہ گولہ باری نہیں کریں گے۔ موجودہ چیف جسٹس کو سابق چیف جسٹس کی عزت افزائی بھولی تو نہیں ہو گی۔

عمران خان کی سیاست کا ایشو یہی رہا ہے کہ وہ اسی چیز کو سچ مانتے ہیں جو ان کو سچ لگتی ہے وہ کسی اور کا سچ دیکھنا یا سننا پسند نہیں کرتے۔ ان کی مرضی کے فیصلے ہوں تو انصاف کا بول بالا نہیں تو بے انصافی۔ ان کی مرضی کا فیصلے آ جائے تو قابل قبول نہیں تو نامنظور۔ عمران خان چاہتے ہیں عدالت بھی ان کی مرضی کی ہو ججز بھی ان کی مرضی کے اور فیصلے بھی ان کی حسب خواہش آئے ان کی خواہش سے ہٹ کرآنے والے تمام فیصلے کسی ہڈی کا نتیجہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments