راز کیوں افشا کریں؟


1998  دسمبر کا آخری ہفتہ اور رمضان کا مہینہ تھا۔ صحافیوں کی تنظیم کے وفد کے ہمراہ دلی میں کانفرنس میں شرکت کی۔ لاہور کے ریلوے سٹیشن پر ہم لوگ اکٹھے ہوئے، چونکہ سفر کررہے تھے اور چند ایک کے سوا کسی کا روزہ نہیں تھا، ایک دو نے سگریٹ سلگا لئے۔ ٹرین کی واہگہ سے روانگی کا انتظار تھا۔ سمجھوتہ ایکسپریس میں گنتی کے مسافر تھے۔ ہمیں ریلوے کے ایک جاننے والے اہلکار نے بتایا کہ چونکہ ٹرین بھارت جا رہی ہے اس لیے خاص نگرانی بھی ہوتی ہے، آپ پر خفیہ والے نگاہ رکھے ہوئی ہیں۔ خصوصاً سگریٹ پینے والی سرگرمی پر اعتراض کرسکتے ہیں۔ ایسا ہی ہوا وہ لوگ آئے اور پوچھ گچھ شروع کی۔ ہم میں سے کسی نے جواباً کہہ دیا، سٹیشن پر کھانے پینے کی اجازت ہوتی ہے۔ ہلکی پھلکی لفظی جھڑپ کے بعد ہم ٹرین پر سوار ہو گئے، راستے میں وہ اہلکار بھی ساتھ تھے۔ اب کچھ سکون سے باتیں ہوئیں اور آخر کار ہم واہگہ کے راستے اٹاری سٹیشن پہنچ گئے، لیکن یہ عمل کوئی چھ سات گھنٹے لے گیا۔

اٹاری پر ایک سمارٹ نوجوان ہمارے پاس آیا اور ابتدائی علیک سلیک کے بعد ہمارے پاکستانی خفیہ والے اہلکار کے حلیے کا حوالہ دیکر پوچھنے لگا کہ اس کے ساتھ لاہور سٹیشن پر کیا جھگڑا ہوا تھا۔ ہم سب چونک گئے کیونکہ اس وقت خفیہ کے اہلکار اور ریلوے اہلکار کے علاوہ کوئی مسافر بھی وہاں موجود نہیں تھا۔ ہم میں سے ایک صحافی جذباتی انداز میں کتھا سنانے لگا کہ وہ ہمیں سگریٹ پینے سے روک رہا تھا اسی دوران ایک سنیئر نے بھانپتے ہوئے کہا نہیں کوئی خاص معاملہ نہیں تھا۔ جب ہم نے اس کا تعارف معلوم کرنا چاہا تو اس نے کہا میں بھارتی فوج کی خفیہ ایجنسی راء کا افسر ہوں۔ ہمارے تو جیسے ذہن یکدم ماؤف ہوگئے۔ بھارتی سیاست پر اس نے کھل کر تنقید کی۔ راجیو گاندھی کے بوفورس توپوں کی خریداری کے سکینڈل کو بھی نشانہ بنایا۔ ہم میں سے کسی نے کشمیر کی بات کی تو وہ سیدھا ہوگیا اور بالکل روایتی انداز میں کہا کہ وہاں عسکری میدان پر بھارت منہ توڑ جواب دے گا۔

اس کے بعد ہم سب نے بظاہر خیرسگالی گفتگو کو فوری سمیٹ لیا۔ اور پورے دورے میں کافی محتاط رہے۔ وہاں ایک چیز دیکھی کہ سیکولر طبقہ پاکستان اور بھارت میں رابطوں انسانوں کے باہمی تعلقات کی بڑی بات کرتا ہے لیکن بھارت کی ریاست اور میڈیا کی سوچ اس سے مختلف ہے، وہ سرحد پار سے آنے والوں کے منہ سے نکلنے والے الفاظ کو اپنے رنگ میں ڈھالنے کے منتظر رہتے ہیں۔ واپسی پر وہی افسر ملا مگر کوئی بات نہ کی اور انجان بن کر گزر گیا۔ مطلب اس کا مقصد پورا ہو گیا تھا۔

اس تمہید کا مقصد یہ باور کرانا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تعلقات کی خواہش بہت پرانی ہے اور رابطوں کو آگے بڑھانے کی کوششیں بھی حکومتی اور غیرسرکاری سطح پر ہوتی رہیں۔ مگر دونوں ملکوں کے درمیان ریاستی سطح کے تعلقات کی نوعیت ہمیشہ ذرا مختلف اور حساس رہی ہے۔

پاکستانی بعض اوقات بھارت میں جذباتی ہوکر اپنی حکومت اور ریاست کی خامیوں پر بڑھ چڑھ کر گفتگو کرتے ہیں اور یہ جذبات بھارتی میڈیا میں بالکل نیا رنگ دے کر پیش کئے جاتے ہیں۔

دہشت گردی کا معاملہ لیا جائے یہ دونوں جانب کا مسئلہ ہے، اگر ہمارے نان اسٹیٹ ایکٹر ہیں تو بھارت اسٹیٹ لیول پر جواب دیتا ہے۔ میڈیا پر آنے والی باتوں کو بہت حساس انداز میں لیا جاتا ہے۔ کسی ذمہ دار فرد سیاست دان، اعلیٰ افسر یا پھر میڈیا کی رپورٹ کو فوری طور پر پکڑکر خوب اچھالا جاتا ہے۔

اب حقیقت کتنی ہے اور ہمارے باہمی تعلقات کو کس حد تک متاثر کر رہی ہے، یہ سب بھی دیکھنا ہوتا ہے۔ سرحدوں پر ہونے والی جھڑپوں کو بھی میڈیا میں دونوں جانب سے اپنے رُخ سے پیش کیا جاتا ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال سویلین بات چیت کی بھی ہوتی ہے۔

یہ ایسا ہی ہے کہ گھر کی کوئی سچی بات باہر کسی کو معلوم ہوجائے اور وہ ڈھنڈورا پیٹنے لگ جائے۔ ایسے میں کس کو موردالزام ٹھہرائیں۔ اور اس کا فائدہ کس کو ہوگا؟

پاک بھارت تعلقات اچھے ہوں یہ شاید ہر امن پسند اور باشعور شہری کی خواہش ہوگی۔ کیونکہ جنگ وجدل اور محاذآرائی تو ملک کے اندر بھی ناقابل برداشت ہے۔ مگر سب سے پہلے جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے جنہوں نے ملک کی خارجہ پالیسی کے فیصلے کرنا ہیں اور کوئی بھی ایسا قدم اٹھانا ہے۔ جس سے عوام کی بہتری ہو۔ لیکن کوئی اکیلا فرد یا تنظیم ایسا نہیں کرسکتی۔ حتیٰ کہ ادارہ بھی نہ امن لاسکتا ہے نہ جنگ کے نتیجے میں دوسرا ملک فتح کیا جاسکتا ہے۔ یہ کام محبت پیار اور اجتماعی حکمت عملی سے ہی ممکن ہیں۔ اگر ہم کہتے ہیں کہ پہلے اپنا گھر ٹھیک کرنا ہے تو پھر اس کے بعد ہی کسی کو الزام دے سکتے ہیں۔ اپنے ہاتھ کاٹ کر دینے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

ریاستی امور کو جمہوری اداروں کے تحت لاکر ہی غیرریاستی عناصر سے نمٹا جا سکتا ہے، اپنی خامیوں اور کمزوریوں کو دوسروں تک پہنچانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اس وقت تک سینے میں چھپے رازوں کو افشاء کرنے کا الٹا نقصان ہی ہو گا۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar