ڈان اخبار کی تقسیم میں خلل: صحافتی اداروں کی تنقید


دنیا بھر میں آزادی صحافت کے لیے سرگرم بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) نے پاکستان کے سب سے قدیم اخبار ڈان کی تقسیم میں خلل کے واقعات کا ذمہ دار ریاستی اداروں کو ٹھہراتے ہوئے اسے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ڈان اخبار کو ان مشکلات کا سامنا پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کا ایک انٹرویو شائع کرنے کی وجہ کرنا پڑ رہا ہے۔ اس انٹرویو میں نواز شریف نے اشارتاﹰ کہا تھا کہ سن 2008 کے ممبئی حملوں کے پیچھے پاکستانی عسکریت پسندوں کا ہاتھ تھا۔

نواز شریف کے اس تبصرے کے بعد بھارت اور پاکستان میں ایک ’آگ کا طوفان‘ مچ گیا تھا۔ فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اس طرح پاکستان کی مسلح افواج کو تنقید کا نشانہ بناتے اور بھارت میں پاکستان کی مبینہ پراکسی وار کے حوالے سے بات کرتے ہوئے نواز شریف نے اس ریڈ لائن کو عبور کیا ہے، جس کے قریب جانے کی بھی اجازت نہیں ہے۔

آر ایس ایف کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق ملک کے بڑے انگریزی روزنامے کی تقسیم کو ملک کے زیادہ تر حصوں میں محدود بنا دیا گیا ہے۔ جاری ہونے والے بیان کے مطابق، ’’ انٹرویو، جس نے مبینہ طور پر پاکستانی فوج کو ناراض کیا، بارہ مئی کے دن شائع کیا گیا تھا اور اس اخبار کی تقسیم میں رکاوٹوں کا سلسلہ پندرہ مئی سے شروع ہوا۔ بلوچستان کے زیادہ تر علاقوں میں یہ اخبار نہیں پہنچ رہا، اسی طرح سندھ کے متعدد شہروں اور تمام فوجی چھاونیوں میں بھی اس پر پابندی ہے۔‘‘

پریس کونسل آف پاکستان نے ڈان کے ایڈیٹر کو یہ نوٹیفیکیشن بھیجا ہے کہ انہوں نے انٹرویو شائع کرتے ہوئے اخلاقی ضوابط کی خلاف ورزی کی ہے، ’’جسے پاکستان یا اس کے عوام کی خودمختاری یا سالمیت کو کمزور کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔‘‘

آر ایس ایف نے الزام عائد کرتے ہوئے مزید کہا ہے، ’’ ایک مرکزی اخبار کی تقسیم میں ناجائز خلل سے ظاہر ہوتا ہے کہ فوج پاکستان میں خبروں اور معلومات تک رسائی پر اپنی گرفت کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔‘‘ جاری ہونے والے بیان میں عسکری اداروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مزید کہا گیا ہے، ’’یہ واضح ہے کہ فوجی ہائی کمانڈ نہیں چاہتی کہ عام انتخابات سے پہلے جمہوری مباحثہ ہو۔ ہم حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ آزاد میڈیا کی تقسیم میں مداخلت نہ کریں اور ملک بھر میں ڈان نیوز کی تقسیم کو بحال کیا جائے۔‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).