جوتا پکڑ کر چور چور چلانا۔۔۔


\"edit\"وزیراعظم کی تقریر اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی زیر نگرانی پاناما پیپرز کے ذریعے سامنے آنے والی معلومات کے بارے میں تحقیقات کے لئے کمیشن کے قیام کا مطالبہ منظور ہو جانے کے بعد الزام تراشی اور سیاسی کھیل ختم ہونے کی بجائے زیادہ شدومد سے ایک نیا رخ اختیار کر چکا ہے۔ یہ کوئی غیر متوقع بات نہیں ہے۔ کمیشن کے قیام کے حوالے سے یہ خبر وزیراعظم کی تقریر سے 24 گھنٹے پہلے ہی معلوم ہو گئی تھی کہ حکومت سپریم کورٹ کو خط لکھنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ تاہم جس طرح یہ فیصلہ سیاسی طور پر درست ہونے کے باوجود بدنیتی کا مظہر ہے، اسی طرح اپوزیشن کی تنقید اور مہم بھی صرف ملک میں قانون کی بالا دستی کے نقطہ نظر سے نہیں ہے۔ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی دونوں اس موقع سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ البتہ اس گرمجوشی میں سیاستدان یہ فراموش کر بیٹھے ہیں کہ ملک کے عوام اب بتدریج باشعور ہو رہے ہیں۔ وہ کسی بھی سیاسی پارٹی کی کارکردگی پر اسے ووٹ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرنے لگے ہیں۔

اسی لئے الزام تراشی کی سیاست اگرچہ مقبول اور ٹاک شوز کے مباحث اور کالموں کا موضوع بننے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن اس طرح لوگوں کو کسی ایک شخص ، خاندان یا سیاسی پارٹی کو بدعنوان ، سازشی اور ملک دشمن نہیں سمجھا جا سکتا۔ بلکہ اب یہ محسوس کیا جا سکتا ہے کہ جو لیڈر جتنا زیادہ شور مچاتا ہے، مخالف سیاسی حریفوں پر بڑھ چڑھ کر حملے کرتا ہے اور یہ تاثر دیتا ہے کہ یہ حکومت یا پارٹی ملک لوٹ کر کھا چکی ہے …. اس کی باتوں کو تفریح طبع کے لئے تو سنا جاتا ہے لیکن اس لیڈر یا پارٹی کو اس کا سیاسی فائدہ پہنچنے کا امکان نہیں ہوتا۔ تحریک انصاف اور عمران خان کی مثال سب کے سامنے ہے۔ ان کی طرف سے وفاقی حکومت اور نواز شریف کے بارے میں جس جارحانہ رویہ کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے، اسی لحاظ سے عام لوگوں میں ان کی مقبولیت اور ووٹ بینک میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔ اس کے آثار تو دیکھے جا سکتے ہیں لیکن 2018 کے انتخابات میں صورتحال مزید واضح ہو جائے گی۔ حالانکہ ایک متبادل اور اہم سیاسی جماعت کے طور پر عمران خان 2014 میں دھرنا سیاست میں ناکامی کے بعد پارٹی کو منظم کر کے اور نئے انتخابات کی حکمت عملی تیار کر کے خود اپنی اور عوام کی بہتر خدمت کر سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے احتجاج ، الزام اور جارحانہ طرز عمل اختیار کرنے کی سیاست اختیار کر رکھی ہے۔ ملک و قوم کے لئے یہ المیہ ہو گا کہ ایک ایسا لیڈر جس کی دیانت کے بارے میں عام طور سے حرف زنی نہیں کی جاتی، اپنی سیاسی ناپختگی کی وجہ سے ایک اہم تحریک کو ضائع کرنے کا سبب بن رہا ہے۔

اس سے بھی زیادہ المناک بات یہ ہے کہ وزیروں کی فوج ظفر موج کو عمران خان کی کردار کشی پر متعین کرنے کے بعد بھی وزیراعظم نواز شریف کی تسلی نہیں ہوئی۔ انہوں نے کل قوم کے خطاب میں نام لئے بغیر عمران خان اور تحریک انصاف پر جس قدر ممکن تھا حملے کرنے کی کوشش کی۔ یہ ایک افسوسناک طرز عمل ہے۔ اگر مسلم لیگ (ن) نے بھی اس طریقہ کار کو ترک نہ کیا تو اسے بھی لوگوں کی طرف سے منفی رویہ کا ہی سامنا کرنا پڑے گا۔ اب یہ بات اچھی طرح سمجھی جا چکی ہے کہ جو لیڈر دوسروں کو چھوٹا ثابت کر کے خود کو بڑا بنا کر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ عوام میں ہر دلعزیز نہیں ہو سکتے۔ یہ جمہوری عمل میں عام لوگوں میں پیدا ہونے والے شعور کا لازمی حصہ ہے۔ جو لیڈر اس تبدیلی کو محسوس کر کے اس کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش نہیں کریں گے، انہیں بالآخر مایوسی ہی کا سامنا ہو گا۔ کیونکہ لوگ ان کے طرز عمل کو مسترد کریں گے۔

میاں نواز شریف اس وقت حکومت کے سربراہ ہیں۔ ذاتی حملوں اور اپوزیشن کے طرز عمل سے جذباتی ہونا اور تکلیف محسوس کرنا فطری عمل ہے۔ لیکن بطور وزیراعظم انہیں اس غصہ کا اظہار قومی ٹیلی ویژن پر سرکاری وسائل صرف کرتے ہوئے نہیں کرنا چاہئے تھا۔ وزیراعظم نے اپنی مظلومیت کی داستان سناتے ہوئے متعدد سوال کئے ہیں۔ لیکن عوام نے 2013 کے انتخابات میں انہیں جو اعتماد عطا کیا تھا، اس کا مطلب ہی یہ تھا کہ وہ ان کی طرف سے ان سوالوں کے جواب تلاش کریں گے۔ وگرنہ پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدامات اور ایک منتخب حکومت کے خلاف کارروائی کے بارے میں سوالات تو ملک کے ہر ذی شعور کے نوک زبان ہیں۔ لیکن یہ لوگ کچھ کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ ایک عام آدمی کسی مجرم کو کو انصاف کے کٹہرے میں لا کر سزا دلوانے کی طاقت و ہمت نہیں رکھتا۔ یہ کام حکومتوں کو تفویض کیا جاتا ہے۔ اس سوال کا جواب آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کو دینا ہے کہ وہ کون سی مصلحتیں ہیں جن کی بنیاد پر وہ گزشتہ 8 برس کی جمہوری حکومت کے ادوار میں ایک آئین شکن کو انصاف کے کٹہرے میں لانے میں ناکام رہے ہیں۔ اور اگر قوم و ملک کے مفاد کے لئے اس مصلحت سے کام لینے کی ضرورت ہے تو اسے سیاسی نعرہ بنا کر جذباتی تقریریں کر کے اپنے سوا کسی کو بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا۔

حکومت نے پاناما پیپرز سامنے آنے کے بعد اٹھنے والے ہنگامے کے بعد بالآخر اپوزیشن کا یہ مطالبہ ماننے کا دعویٰ کیا ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو کمیشن بنانے کا اختیار دیا جائے۔ لیکن اس مجوزہ کمیشن کے لئے جو قواعد و ضوابط اور رہنما اصول مرتب کئے گئے ہیں ، ان سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت درحقیقت تحقیقات کروانے اور عوام کو اصل حقائق سے آگاہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ کمیشن سے کہا گیا ہے کہ وہ 1947 سے لے کر اب تک ہر قسم کی بدعنوانی اور عہدے سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کارروائیوں کی تحقیقات کرے۔ حیرت ہے کہ جو کام ملک میں یکے بعد دیگرے قائم ہونے والے احتساب کے ادارے نہیں کر سکے۔ ملک کے قانون اور اسے نافذ کرنے والے ادارے جس بدعنوانی کا تدارک کرنے میں ناکام رہے …….. ایک عدالتی کمیشن کیسے اور کیوں کر یہ کارنامہ سرانجام دے سکے گا۔ اس صورت میں تو شاید ملک کی کئی نسلوں کو نتائج کا انتظار کرنا پڑے گا۔ معاملہ پاناما لیکس کے حوالے سے سامنے آنے والے الزامات سے متعلق ہے لیکن حکومت کا مجوزہ کمیشن 68 برس کے دوران ہونے والی بدعنوانیوں کا جائزہ لے گا اور ملزموں کی نشاندہی کرے گا۔ اس ملک میں کون ہے جو اس خوش فہمی میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں حکومت اور اپوزیشن کو بدعنوانی کے نام پر جوتا پکڑ کر چور چور چلانے کی بجائے اپنے پارلیمانی اور جمہوری کردار کو ادا کرنے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

عمران خان نے حکومت کی طرف سے تیار کئے گئے ٹرمز آف ریفرنس کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم حکومت کی سربراہی کرنے کی مارل اتھارٹی سے محروم ہو چکے ہیں۔ اس لئے انہیں فوری طور سے استعفیٰ دے دینا چاہئے۔ لیکن وہ یہ مطالبہ کرتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ اخلاقی ذمہ داری قبول کرنے کی روایت ابھی اس ملک میں استوار نہیں ہو سکی ہے۔ عمران خان اپوزیشن میں ہونے کے باوجود پارٹی کے معاملات یا قومی سیاست میں شعبدے بازیوں پر ہرگز شرمندہ نہیں ہوتے بلکہ ایک غلطی کے بعد اس سے بڑی غلطی کرنے کی طرف پوری شدت سے گامزن ہوتے ہیں۔ وہ نواز شریف اور دوسرے لیڈروں پر جو الزامات عائد کرتے ہیں، آج تک انہوں نے اس بارے میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔ لیکن اس ناکامی کی اخلاقی ذمہ داری بھی قبول نہیں کی۔ اگر وزارت عظمیٰ حاصل کرنے کے لئے بے چین عمران خان سیاسی اخلاقیات سے بالاتر ہیں تو ملک کے بااختیار وزیراعظم صرف الزام عائد کرنے پر کیوں اخلاقی ذمہ داری قبول کریں اور اپنے عہدے سے استعفیٰ دیں۔

بہتر ہو گا کہ یہ دونوں لیڈر ایک دوسرے کو مطعون کر کے ہلکان ہونے کی بجائے ایسے سیاسی ماحول اور جمہوری مزاج کے لئے کام کریں جس میں الزام لگنے کی صورت میں برسر اقتدار لیڈر اخلاقی ذمہ داری قبول کرتا ہے اور اپوزیشن ملک کے اداروں کو قانون کے مطابق کام کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ اپنی مرضی کے مطابق کمیشن قائم کروانے کے مطالبوں سے اصل حقائق کو نگاہوں سے دور کرنے کی کوشش نہیں کرتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments