ایک لفافہ بلاگر کی دکھ بیتی!


پتہ نہیں ان مذمتی بلاگوں کی آمد سے میری جان اور پڑھنے سے آپ کی جان کب چھٹے گی۔ اہل کرم کا تماشا نہیں مکنا اور نہ ہمارے لوح و قلم کی پرورش۔ بہت سوچا تھا کہ آج کچھ پکوڑوں کے فوائد پر لکھیں گے کہ روزوں کے ساتھ وہ بھی تو فرض کئے گئے ہیں۔ لیکن معاف کیجئے گا آج پھر رونا دھونا ہی چلے گا۔ کوئی نئی بات نہیں ہو گی بلکہ پچھلے دنوں کے مسئلے مسائل کو ہی رویا جائے گا۔ خیر آج بات ذرا ذاتی نوعیت کی ہے۔ لہذا التماس ہے کہ ہمارے اس دکھ کا اگر مداوا ممکن نہیں تو کم سے کم کوئی حل ہی تجویز کر دیا جائے۔

پچھلے کچھ بلاگوں کو جہاں آپ نے اس قدر سراہا وہیں کچھ زیرک تجزیہ کاروں نے یہ نکتہ بھی اٹھایا کہ سعدیہ بی بی خوامخواہ خود کو لکھاری سمجھ بیٹھی ہیں۔ اصل گیم تو لفافے کی ہے۔ سیدھے لفظوں میں یوں کہئے کہ ہمیں لفافہ بلاگر کا لقب عنایت کیا گیا۔ ان عزیزوں کا دل ہی نہیں مانتا کہ کوئی بھی صحافی ان کے بیانیے سے ہٹ کر بھی کچھ لکھ سکتا ہے۔ جس نے یہ رقیق حرکت کی وہ ضمیر سے عاری اور لفافے سے سرشار ہے۔ جی اچھا!

یوں تو  ہم کچھ ایسے ننھے نہیں لیکن اس دور سے بھی تعلق نہیں رکھتے جب بہت سے صحافیوں کے گھر کا چولہا لفافوں پر چلتا تھا۔ کچھ سینئر دوستوں سے مشورہ کیا تو لفافے کی حقیقت بھی معلوم ہوئی۔

یہ ایک لفافہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ہزار بلوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات!

ہم نہ صرف اس الزام کو یکسر رد کرتے ہیں بلکہ اس کے خلاف آواز بھی اٹھاتے ہیں۔ آخر ہم بھی انسان ہیں۔ لکھ لکھ کر آنکھیں چھوٹی ہو گئیں۔ رشتے داروں سے میل ملاپ کم ہو گیا۔ راتوں کی نیندیں ختم ہو گئیں اور ہمیں ملا کیا؟ بس یہ الزام تراشی؟ ہم نہ صرف اس الزام کی بلکہ ان سب ارباب کی بھی بھرپور مذمت کرتے ہیں جنہوں نے کتے بلیوں تک میں لفافے تقسیم کئے۔ لوگوں کے گھروں کے راشن تک ڈلوائے۔ اور ہمیں ایک عیدی کے لفافے کے بھی قابل نہ جانا۔ کیا اتنے برے ہیں ہم؟  ہمارے اس احساس محرومی کا کون مداوا کرے گا؟

جس سے ملو ایک ہی بات پوچھتا ہے کہ کرتی کیا ہو۔ یوں تو ہم اس سوال سے کوسوں دور بھاگتے ہیں لیکن اگر خلاصی ممکن نہ ہو تو دبے لفظوں میں اپنے انہی بلاگز کا ذکر کرتے ہیں جو یہ شریک اپنے فیس بک پر بڑے فخر سے پوسٹ کرتے ہیں۔ اگلا سوال اس سے بھی دل سوز ہوتا ہے۔

‘اچھا وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن کرتی کیا ہو؟’

اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہیں رہتی۔ لیکن اب ہمیں ایک آئیڈیا آیا ہے کہ گھر کے حالات جو بھی ہوں، کچن جس بھی طرح چلے۔ لوگوں میں اپنا بھرم قائم رکھیں۔ کوئی پوچھے تو جھٹ کہہ دیں کہ ہم لفافہ بلاگر ہیں۔ اس سے کم از کم دوسرا سوال تو نہیں ابھرے گا۔ عزت بھی قائم ہو جائے گی کہ سعدیہ اچھا کماتی ہے۔ الزام تراشوں کی تسلی بھی ہو جائے گی۔ اور ہو سکتا ہے ہمیں لفافے سے محروم رکھنے والوں کو کچھ شرم بھی آ جائے۔

کیسا آئیڈیا ہے؟ ہیں نا ہم پھر شدید ذہین؟

آپ سند دیں تو ہم اخبار میں تبدیلی نام کا اشتہار بھی دے دیں اور گھر پر تختی بنا کر بھی لگا دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).