حکم ربی، گرم جلیبی اور نواز شریف


\"husnainایک صاحب بہت کنجوس تھے، میلے کچیلے رہتے، بھوکے پیاسے گھومتے رہتے، لیکن تھے وہ پوتڑوں کے رئیس۔ ایک شام وہ اپنے ملازم کے ساتھ بازار سے گزر رہے تھے۔ ملازم بے چارہ صبح کے نپے تلے ناشتے کے بعد بہت بھوکا تھا۔ رہ رہ کر اسے کھانے کا خیال آتا تھا لیکن اسے بڑے صاحب کی عادت معلوم تھی، جب تک ان کے تمام کام دھندے ختم نہ ہو جاتے وہ نہ خود کھانا کھاتے تھے نہ ہی ساتھ کے ملازموں کو کھانے دیتے تھے۔ تو وہ بے چارہ گردن جھکائے ساتھ ساتھ چلا جا رہا تھا۔ ایسے میں دور ایک جگہ بڑی سا کڑاھا نظر آیا۔ تھوڑے قریب گئے تو نظر آیا کہ خوب شوخ اور باریک قسم کی جلیبیاں بن رہی ہیں۔ جیسے جیسے قریب آتے جا رہے تھے، ملازم کے منہ میں پانی آتا جارہا تھا۔ ایک دم بڑے صاحب گویا ہوئے، یار، دیکھو کیسی شوخ جلیبیاں بن رہی ہیں، ملازم نے سوچا شاید قبولیت کی گھڑی آ گئی، کہنے لگا، جی صاحب اور دیکھیے کس خوبی سے باریک باریک بنائے جا رہا ہے۔ صاحب پھر بولے، بھئی کیسی مزے کی ہوں گی میٹھی میٹھی، ملازم نے بھی بھوکی نظروں سے ہاں میں ہاں ملائی۔ اتنے میں جلیبی والے کے بالکل قریب آ گئے، ملازم سوچنے لگا کہ اب ہاتھ آئیں ہی آئیں۔ اچانک صاحب بولے، بھئی بات یہ ہے کہ بھوک بھی بہت زوروں کی ہے میاں لیکن ایک مسئلہ ہے، معلوم ہے کیا؟ حکم ربی نہیں ہے!

پانامہ لیکس کے بعد کرسی کی طرف آنکھ رکھنے والے بہت سے معززین نے جو واویلا کیا وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ شاید وہی شوروغوغا ہمارے یہاں نوے فی صد لوگوں کے دلوں کی آواز بھی ہے۔ بہرحال، یہ کوئی ایسا بڑا مسئلہ نہیں، فقیر نوے کی دہائی سے آج تک انہی مخصوص چہروں کو ہر سیاسی تبدیلی پر مٹھائی بانٹتے دیکھتا آیا ہے۔ اور ہمارے لوگ بھی خشوع و خضوع سے ہر نئے آنے والے کے ساتھ ہوتے ہیں، کیوں کہ وہ مسلسل کسی تھرل کے خواہاں ہوتے ہیں۔

اب کے اوپر تلے چند ایسے واقعات رونما ہوئے کہ جلیبیاں ہمارے پیارے سیاست دانوں کو بہت قریب نظر آنے لگیں۔ سنجیدگی سے بار بار انہوں نے اپنے صاحب کو گردن اٹھا اٹھا کر ملتجیانہ نظروں سے دیکھا، جلیبیوں کی خصوصیات بتائیں، حاصل کرنے کے لیے مختلف جوڑ توڑ سمجھائے، دھرنے سے لے کر گھیراو اور محاسبے تک کے امور پر غور کیا گیا مگر بات نہیں بنی۔ جلیبیاں فی الحال ان کی پہنچ سے دور ہیں۔

بہ ظاہر گاجر اور چھڑی والے کھیل میں ہئیت مقتدرہ نہایت سنجیدہ دکھائی دیتی ہے۔ درون خانہ احتساب کا عمل اور چھ سات ریٹائرمنٹیاں دراصل صرف اس چیز کا پیغام ہیں کہ بین الاقوامی معاملات کلی طور پر ہمارے ہی ہاتھ میں رہنے دو اور تم سکون سے بیٹھے ملک چلاتے رہو، ورنہ ہمارے فیصلوں کی ٹائمنگ ایسی ہی رہے گی۔ ان میں سر فہرست CPEC کا معاملہ ہے جو پہلے ہی دہشت گردی کے خلاف ہنگامی اقدامات کی وجہ سے بظاہر تاخیر کا شکار ہے۔ اس مرحلے پر اگر حکومت گرائی جاتی ہے یا وزیر اعظم کا ہی مواخذہ کیا جاتا ہے تو معاملات مزید تاخیر کا شکار ہوں گے جو فی الحال دونوں پارٹیوں کے لئے نقصان کی بات ہے۔

گذشتہ روز وزیر اعظم نے قوم سے خطاب میں جو کچھ کہا اس میں سب سے اہم چیز ان کی باڈی لینگوئج تھی۔ وہ ایک ایسے شخص نظر آ رہے تھے جسے اتنا اعتماد ہے کہ فی الحال کچھ نہیں بگڑنے والا، لیکن ساتھ ساتھ وہ مایوس اور تھکے ہوئے بھی نظر آئے، اور پوری تقریر کے دوران محسوس ہوا جیسے کہنا چاہ رہے ہوں کہ یار بہت ہو گئی، تم لوگ سمجھتے نہیں ہو، آپس میں لڑنے سے بہرحال نقصان ہوگا۔ وزیر اعظم کے منصب پر رہتے ہوئے خطاب کرنا اور اس میں سیاسی مخالفین کو للکارنا اسی اعتماد کی بدولت ہے۔ یہ الگ بات کہ اس للکار میں ایک سادگی تھی یا بھول پن تھا جو ان کا خاص سٹائل ہے۔ اسی لہجے میں انہوں نے کرپشن ثابت ہونے پر گھر جانے کی بات کی، شاید تازہ تازہ ریٹائرمنٹس کی خبریں اور فوجیوں کا گھر جانا دیکھا تھا جو ایسی بات کر گئے نہیں تو سویلین کرپشن کا نتیجہ ثابت ہونے کی صورت میں کم از کم جیل اور ثابت نہ ہونے کی صورت میں دبئی اور لندن کی طرف نکلتا ہے۔ جو وہ خود بہتر سمجھتے ہیں۔

ایک اور پہلو سے غور کریں تو فی الوقت بلاول زرداری اور عمران خان دونوں ہی اپنے پاوں پر کلہاڑی مارتے دکھائی دے ہیں۔ پانامہ لیکس میں ابھی بہت سے نام آنے باقی ہیں اور جو آ چکے ان میں دونوں جماعتوں کے کئی لوگ موجود ہیں۔ بلاول کا وزیر اعظم کے استعفے والا بیان اور خان صاحب کی جلد بازیاں انہیں ایک بار پھر ناپختہ ثابت کرتے ہیں۔

پانامہ لیکس میں موجود تمام 250 سے زیادہ افراد کے خلاف کمشن بٹھانے کا اعلان وہ چال ہے کہ جس نے ایک بار پھر اپوزیشن جماعتوں کے قدم ڈگمگا دئیے ہیں۔ بلند و بالا مقامات سے دئیے گئے بیانات کی گونج تو سنائی دے رہی ہے لیکن بیان دینے والے الٹے پیروں واپس جانے کی تیاریوں میں ہیں۔

ترپ کا پتا موقعے پر دکھائے جانے کا نام سیاست ہے نہ کہ ہر وقت \”شو\” کراتے رہنا۔ کھیڈاں گے، نہ کھیڈن دیاں گے والا ماحول بھی فی الحال دکھائی نہیں دیتا کیوں کہ چوہدری پرویز الہی اینڈ پارٹی فی الحال مکمل سکون میں ہے۔ دیکھنا صرف یہ ہے کہ نواز شریف ترپ کا پتا کب نکالتے ہیں۔ باقی تو حکم ربی کے ہم سب منتظر ہیں ہی۔

پس نوشت؛ آج ایک خبر کے مطابق عدالت عالیہ نے جنرل مشرف کے میڈیکل کاغذات جعلی ہونے پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ ایک نظر اس کھیل کو دیکھیے اور ایک طرف ان سیاست دانوں کو، کہ جن کے جانے کے آپ سبھی انتظار میں ہیں۔ آج نہیں تو کل یہ بات ہم سب کو سمجھنا ہے کہ یہ سیاسی رہنما ہمارے tangible assets ہیں، یعنی یہ وہ ہیں کہ جو ہمارے ہاتھ میں ہیں، جن کا ہم مواخذہ کر سکتے ہیں، جن سے کبھی نہ کبھی پوچھ تاچھ کی جا سکتی ہے۔ ایسے حکم رانوں کے پیچھے بھاگنے کا کیا فائدہ کہ جو تقریروں میں خیالی دشمن فرض کر کے مکے دکھائیں اور جب مواخذے کا وقت آئے تو معلوم ہو وہ مکا پوری قوم کو ہی دکھایا گیا تھا۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments