انسان کو آدھی نہیں ،مکمل آزادی کی ضرورت ہے


 

ماڈل ٹاؤن پارک لاہور میں ایک درخت کے نیچے خاموشی سے بیٹھاتھا، درخت سے گفت و شنید جاری تھی کہ اسی دوران ایک دوست کی کال آگئی، کہاں ہو؟ میں نے کہا ماڈل ٹاؤن پارک میں فلاں درخت کے نیچے بیٹھا ہوں۔ اس نے کہا یہی سے اٹھنا مت، میں بھی پارک میں ہوں، کچھ دیر میں تمہارے پاس پہنچتا ہوں۔ موبائل پر دوست سے بات ختم ہوئی تو میں نے اپنے دوست درخت کی طرف دیکھا، وہ ناراض ناراص سا لگا۔ میں نے معذرت کی اور دوبارہ اسے کے ساتھ بات چیت شروع ہو گئی۔

درخت اور انسان اچھے دوست ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ درخت میں بھی حساسیت، محبت، پیاراور آزادی کی خصوصیات ہوتی ہیں۔ وہ بھی انسان کی طرح زہین مخلوق ہیں۔ میرا انسانوں کو مشورہ ہے کہ وہ درختوں سے دوستیاں بڑھائیں، ان کی زندگی میں خوشی اور شادمانی آجائے گی۔ خوبصورت درخت اور میرے درمیان باتیں جاری تھی کہ دور سے دوست آتا دکھائی دیا۔ میں نے اپنے درخت دوست سے کہا، آپ نے ناراض نہیں ہونا، کچھ دیر اپنے دوسرے دوست کے ساتھ میری گپ شپ جاری رہے گی۔ درخت نے بھی آنکھوں کے اشاروں اور پتوں کی کھنکھناہٹ سے اشارہ کیا، کوئی بات نہیں، میں آپ دونوں کی گفتگو کو خاموشی سے انجوائے کروں گا۔

علی عمران آرام سے میرے ساتھ آکر بیٹھ گیا۔ علی عمران سا پریشان اور اداس دکھائی دیا۔ علی عمران کے بارے میں یہ بتادوں کہ وہ ایک لبرل انسان ہے، اسے ہمارے حلقہ احباب میں ایک باغی اور انقلابی کے طور پر جاناجاتا ہے۔ علی عمران انسان دوست خصوصیات سے مالا مال ہے۔ یہ باتیں اس لئے لکھ رہا ہوں تاکہ آگے ہماری گفتگو سمجھنے میں آسانی رہے۔ میں نے علی سے سوال کیا، کیا ہوا دوست تم اس قدر حسین، خوبصورت اور پرسکون دکھائی دے رہے ہو؟ میری اس بات پر وہ مسکرا پڑا، اجمل شبیر تم بھی کمال کرتے ہو، میں تمہیں کہاں سے پرسکون اور خوبصورت دکھائی دے رہاہوں؟ تمہیں معلوم نہیں میں کس حد تک اداس اور غمگین ہوں؟ میں نے مسکراتے ہوئے کہا، دوست تیری خوبصورت مسکراہٹ کا نظارہ کرنےکے لئے غلط بیانی کرنی پڑی۔ اس پر ہم دونوں مسکرائے۔ اس نے کہا یار، جس آزادی کی خاطر میں نے اتنی قربانیاں دی ہیں، لگتا ہے وہ آزادی اب میرے پاس نہیں رہے گی۔ میں نے کہا، بھائی یہ آزادی کوئی چیز نہیں ہے جو تمہارے پاس نہیں رہے گی۔ آزادی تو ایک ویلیو کا نام ہے۔ آزادی تو ماضی اور مستقبل سے نجات کا نام ہے۔ یہ ایک روحانی عمل ہے۔ تم تو مجھے اب بھی ایک آزاد انسان دکھائی دے رہے ہو۔

علی عمران نے کہا کہ دوست، ہر انسان اس معاشرے میں انسان کی آزادی کی باتیں کرتا ہے، لیکن حقیقت میں کوئی بھی آزاد نہیں۔ یہی آزادی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ہم انسان آزاد ہونا بھی نہیں چاہتے، لیکن آزادی آزادی کی رٹ لگائے رکھتے ہیں۔ یہ آزادی کس پرندے کا نام ہے، ہم میں سے کوئی بھی آزاد نہیں ہے، ہم سب ذہنی مریض ہیں۔ ہم سب آزادی کی نعرے لگاتے ہیں، لیکن رہتے قید اور جھوٹ کے ساتھ ہیں۔ میں نے کہا دوست اگر ایک انسان غلامی کو چھوڑ کر آزادی کو گلے لگا لیتا ہے تو اس کے ساتھ ساتھ اس پر کچھ ذمہ داریاں بھی نتھی ہو جاتی ہیں۔ اس نے کہا اجمل شبیر تم معاشرے کو نہیں مانتے، بڑوں کی فرمابرداری کو غلامی سمجھتے ہو۔ الہامی نظریات کے خلاف جاتے ہو، کیا یہی آزادی ہے؟ میں نے کہا، دوست اگر تم نے حقیقی آزادی دیکھنی ہے اور محسوس کرنی ہے تو تم اس معاشرے کے لئے غیر ملکی ہو جاؤ۔ اس طرح سے کوئی تم پر اعتماد نہیں کرے گا، تم اکیلے ہو جاؤ گے۔ تمہارے ساتھ کوئی دوستانہ رویہ اختیار نہیں کرے گا۔ اس طرح سے تم خوشحال اور حقیقی بن جاؤ گے۔ یہ سب کچھ تمہیں حقیقت کے خلاف نظر آئے گا، لیکن حقیقت یہی ہے۔ آزادی اور روشنی کا راستہ ہے۔ اس طرح کی آزادی کی خوبصورتی سے روشناس ہو جاؤ گے، تو تمہیں مزہ آئے گا اور تم اپنے آپ کو آزاد محسوس کرو گے۔ اس طرح کی آزادی سے تم غمگین بھی ہو گے اور دکھی بھی ہو گے۔ یہ آزادی کی نفسیات کی کہانی ہے۔

علی عمران نے کہا، دوست میں قومیت سے آزاد ہو چکا ہوں، ذات، برادری سے آزاد ہو چکا ہوں۔ الہامی نظریات کے ساتھ میری کوئی وابستگی نہیں، پھر بھی لگتا ہے میں آزاد نہیں ہوں؟ میں نے کہا دوست، یہ آزادی کا پہلا حصہ ہے۔ یہ آزدی کی بنیاد ہیں۔ تم آزاد ہو، خوش ہو، پرسکون ہو، اپنی انفرادیت کو انجوائے کررہے ہو۔ لیکن یہ آدھی آزادی ہے۔ اسی وجہ سے تمہیں آزادی کی سمجھ نہیں آرہی۔ آدھی آزادی اب بھی لاپتہ ہے۔ آزادی کے کوئی معانی اور مطلب نہیں ہوتے۔ تمہیں لکھنے کی آزادی ہے، کیا تم لکھ رہے ہو؟ تمہیں رقص کرنے کی آزادی ہے، کیا تم رقص کررہے ہو، تمہیں شاعری کرنے کی آزادی ہے، کیا تم سے شاعری ہو رہی ہے؟ جب تک تمہاری طرف سے تخلیقی رویہ سامنے نہیں آئے گا، تم اداس رہو گے۔ تم محسوس کررہے ہو، تم آزاد ہو۔ تمہاری زنجیریں ٹوٹ چکی ہیں۔ لیکن اب بھی مکمل آزاد نہیں ہو؟ آزاد تو ہو لیکن اب تم نے جانا کہاں ہے؟ اب آزاد ہو تو ایک نیا مسئلہ تمہیں یہ درپیش ہے کہ اس آزادی کا کرنا کیا ہے؟ اسی وجہ سے تم اداس ہو۔ جس دن تم نے کسی آزاد تخلیقی راستے کا انتخاب کر لیا، اسی دن آزادی کا چکر مکمل ہو جائے گا اور تم آزاد ہو جاؤ گے۔ اب اپنے اندر کی کائنات میں یہ تلاش کرو کہ یہ آزادی کیوں اور کس لئے؟ جو تمہارے ساتھ ہوا، خوبصورت تھا۔ لیکن اب تمہیں کچھ اور کرنے کی ضرورت ہے۔ اب تمہیں تخلیق کار بننا ہے، کچھ پیدا کرنا ہے۔ ایسی تخلیقیت تلاش کرو جو تمہاری آزادی کو مکمل کرے۔ اب دریافت کرنے کا وقت ہے، وہ دریافت کیا ہے، اس کا کھوج لگاؤ۔ آزادی تو تمہارے لئے ایک موقع ہے۔ آزادی اپنے اندر ایک مقصد نہیں رکھتی۔ یہ صرف انسان کو موقع فراہم کرتی ہے۔ اب اس موقع کا استعمال کرو۔ صرف آزادی پاکر بیٹھے مت رہو۔ اب تمہیں کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا، تاکہ اس معاشرے میں غیر ملکی انسان کی تعداد بڑھ جائے۔

علی عمران نے کہا، دوست میری نفسیاتی غلامی کے رویے تباہ برباد ہو چکے ہیں۔ فیملی سے معاشرے اور معاشرے سے نظریات تک کے تمام دباؤ کو اب میں خاطر میں نہیں لاتا۔ غلامی سے مکمل طور پر پیچھا چھڑا چکا ہوں۔ بہت حد تک مطمئن ہوں، لیکن یہ بات ٹھیک ہے کہ ابھی تک کچھ دریافت نہیں کیا اور نہ ہی تخلیق کار بنا ہوں۔ علی عمران اب کچھ خوش دکھائی دیا، لیکن اسی دوران اس نے ایک اور سوال کیا؟ محبت اور آزادی کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ میں نے کہا دوست آزادی محبت سے بھی اعلی اہمیت کی حامل ہے۔ محبت کو آزادی کے لئے قربان کیا جاسکتا ہے، لیکن آزادی کو محبت کے لئے قربان نہیں کیا جاسکتا۔ یاد رکھو اگر محبت آزادی کی راہ میں رکاوٹ ہے تو یہ محبت نہیں ہو سکتی۔ محبت تو آزادی کی اجازت دیتی ہے۔ محبت نہ صرف آزادی کی اجازت دیتی ہے بلکہ آزادی کو مزید طاقتور بنا دیتی ہے۔ اگر آسمان پر آوارہ پرندے کی طرح اڑان لینا چاہتے ہو تو محبت اور آزادی ضروری ہیں۔ کچھ کے پاس آزادی ہے، کچھ کے پاس محبت ہے، اس لئے ہم مشکل میں ہیں۔ انسان کو دونوں ویلیوز کی ضرورت ہے۔ کسی سے محبت کرو، لیکن اسے آزادی دو، نہ اسے برباد کرو نہ خود برباد ہو جاؤ۔ جس سے محبت کرو، چاہے اس محبت کی شدت کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہو، اسے صاف صاف کہہ دو کہ تم اس کے لئے آزادی کو ختم نہیں کرسکتے۔

محبت اور آزادی دونوں ایک آزاد انسان کی بنیادی ضرورتیں ہیں۔ اگر تمہاری محبت کہیں اور چلی جاتی ہے، اس کی فکر نہ کرو، کیونکہ اب بھی آزادی تمہارے ساتھ ہے اور تم آزاد ہو۔ یہ محبت پھر اس آزادی کے پاس آجائے گی، کیونکہ محبت بھی آزادی کے بغیر رہ نہیں سکتی۔ اس طرح تمہاری زندگی مسائل کا شکار نہیں ہو گی۔ کسی خوبصورت لڑکی سے محبت ہو گئی ہے، تو تمہیں ہوئی ہے نہ۔ وہ تو آزاد تھی۔ لیکن اب اس خوبصورت لڑکی سے تم اس کی آزادی کیسے چھین سکتے ہو یا وہ کیسے تم سے تمہاری آزادی چھین سکتی ہے۔ جس سے محبت کرو اسے پہلا تحفہ ہی آزادی کا دو۔ گفتگو ابھی یہی تک پہنچی تھی کہ دوست کھکھلا کر مسکرانے لگا۔

علی عمران نے کہا، اجمل شبیر میرا مسئلہ حل ہو گیا ہے۔ چلو اب چلتے ہیں۔ رات ہو چکی تھی۔ ہم دونوں وہاں سے اٹھ کر چلنے لگے تو میرے دوست درخت کے پتے ہوا سے پھڑپھڑائے، مجھے ایسا لگا جیسے اس درخت کو ہماری گفتگو بہت پسند آئی ہو۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو درخت کی خاموش مسکراہٹیں میرے کان میں موسیقی کا رس گھولتی نظر آئی۔ دوست نے مجھے اپنے گھر چھوڑا اور گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔ میں ابھی تک اس درخت کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ شاید انسان سے زیادہ درختوں کو آزادی اور محبت کا احساس ہوتا ہے۔ ابھی تک اس احساس کو انجوائے کررہا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).