باندھنا ہاتھوں کا آمر کے سامنے


معظم معین

ہمارے پیارے وزیر اعظم میاں محمد نواز\"moazam\" شریف صاحب اس سال اللہ تعالی کے فضل و کرم سے اپنی سڑسٹھویں سالگرہ منائیں گے۔ اللہ انہیں ایسے ہزاروں دن دیکھنے نصیب فرمائے۔ آمین۔

ہمارے دوست اتنی عمر کے بزرگوں کو اکثر اللہ اللہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ویسے اللہ اللہ تو بندہ کسی بھی عمر میں کر سکتا ہے لیکن وزیر اعظمی کسی کسی کو اس عمر میں نصیب ہوتی ہے۔ کینیڈا کے نوجوان وزیر اعظم کو یہ چوالیس سال کی عمر میں مل گئی ہے۔ لیکن یہ ایسی چیز ہے نہیں کہ کسی بھی عمر میں اس سے دل بھر جائے۔ خود میاں محمد نواز شریف صاحب بھی اکتالیس سال کی عمر میں یہ منصب لوٹ چکے ہیں۔

اصل مسئلہ جو اس عمر میں پڑتا ہے وہ یہ ہے کہ بندہ سمجھ نہیں پاتا کہ دنیا کافی ایڈوانس ہو چکی ہے. جیسے ہمارے ہونہار وزیر اعظم جناب میاں محمد نواز شریف نہیں سمجھ پا رہے۔ وہ اپنے کو ابھی تک ستر کی دھائی میں سمجھ رہے ہیں جب ایک فون کال سننے کے لئے ہمسایوں کے ہاں جانا پڑتا تھا اب تو بچے بچے کے ہاتھ میں ویڈیو کال کی سہولت موجود ہے۔

اپنے قوم سے خطابات کی حالیہ سیریز بلکہ سیزن میں بیچارے ایک بیان کیا دے بیٹھے کہ وہ کون تھا جو آمر کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا تھا \"zia\"کہ سوشل میڈیا کے شوخ و چنچل نوجوانوں کو شغل ہاتھ آ گیا۔ ان کا اشارہ غالبا عمران خان کی طرف تھا پر ان کی تو کم البتہ جناب میاں محمد نواز شریف کی زیادہ تصاویر آمروں کے ساتھ منظر عام پر آ گئیں۔ اب پتا نہیں ان کی عادت تھی ہاتھ باندھنے کی یا قسمت کی ستم ظریفی تھی بہر حال جو بھی تھا شغل اچھا رہا۔

اب ہر کسی کے ہاتھ میں ایسا آلہ ہے کہ ذرا سا ٹک ٹک کرو اور ماضی میں جھانک لو سب کچا چٹھا کھل کو سامنے آجائے گا کہ کب کس نے کس کے سامنے کیا اور کیا کیا تھا اور کیا کیا کہا تھا۔ یہی جناب میاں محمد نواز شریف صاحب کے ساتھ ہوا۔

ہم میاں محمد نواز شریف صاحب کا بار بار پورا نام اس لئے لے رہے ہیں کہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر ان کے پیروکار پورے نام سے ایک لفظ کم نہیں کرتے لہذا ان کی دل آزاری سے بچنے کے لئے ہم یہ ورزش کر رہے ہیں۔

\"shahbaz\"یہی جو میاں محمد نواز شریف صاحب کےساتھ ہوا یہ میاں محمد شہباز شریف صاحب کے ساتھ بھی ہوتا رہتا ہے۔ ابھی گرمیاں آنے والی ہیں پھر ماضی میں زندگی بسر کرنے والے متعصب دشمنوں کو مینار پاکستان کا کیمپ، ہاتھ والا پنکھا اور ان کی تصویریں یاد آجائیں گی۔ لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے جب تک میاں محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف صاحبان کے پیروکار صحتمند نہیں ہوتے کوئی ان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا اور پیروکاروں کے صحتمند ہونے کا مستقبل قریب میں کوئی امکان بھی نہیں کہ آج تک ملک میں انہوں نے کوئی معیاری اسپتال ہی بننے نہیں دیا۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments