میں، میرے ابو اور پیڈز


یہ کہانی میری ایک شریک کار کی ہے جو اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتی ہیں۔

اگر آپ پاکستان میں رہنے والی خاتون ہیں تو آپ کو بھی یہ تلخ تجربہ ضرور ہوا ہو گا۔ جب بھی آپ کسی دکان پر پیڈز لینے جاتیں ہیں تو دکاندار آپ کو ان نظروں سے دیکھتا ہے جیسے آپ نے پیڈز نہیں، چرس مانگ لی ہو۔ اس کے بعد دکاندار کا رویہ کچھ ایسا ہو گا کہ آپ کو اپنے آپ سے شرمندگی ہونے لگے۔ مجھے بھی اس صورتِ حال کا سامنا اکثر رہتا تھا۔ مجھے شدید کوفت ہوتی تھی جب مجھے پیڈز خریدنے ہوتے تھے۔ دکاندار سے پیڈز طلب کرنے پر وہ مجھے اوپر سے نیچے تک ایسے دیکھتے تھے کہ جیسے میں کوئی مریخ سے اتری ہوئی مخلوق ہوں۔ اور اس بات سے قطعی کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ میں کون سی دکان سے پیڈز خرید رہی ہوں۔

اگر میں نے پیڈز ہاتھ میں پکڑ رکھے ہوں جو کاغذی لفافے میں بند نہ ہوں تو لوگ مجھ سے ایسے کتراتے ہیں جیسے مجھے کوئی چھوت کی بیماری ہو۔ جو بڑے اسٹور ہیں وہاں بھی ایسی مصنوعات کے ساتھ یا تو کاغذی لفافے موجود ہوتے ہیں یا پھر انہیں کاؤنٹر سے طلب کرنا پڑتا ہے۔ اور کاؤنٹر سے طلب کرنے پر اسٹور کے ملازمین میں جو تھرتھلی مچتی ہے وہ بھی دیدنی ہوتی ہے۔ شاید ہمارے معاشرے کو یہ سمجھ نہیں آتا کہ ایامِ حیض وہ قدرتی کرشمہ ہے جو دنیا کی تقریباً ہر لڑکی کو نصیب ہے۔ اور ہاں ہمارے ملک کی بھی تمام لڑکیوں کو پیریڈز ہوتے ہیں۔ لیکن اس موضوع پر بات کوئی نہیں کرتا۔

شروع میں جب پاکستان میں خواتین کے لئے یہ مصنوعات متعارف ہوئیں تو بہت مہنگی ہوا کرتی تھیں اور متوسط طبقے کے خاندانوں کی پہنچ سے باہر ہوا کرتی تھیں۔ تو اس وقت میں بھی گھریلو ٹوٹکے استعمال کیا کرتی تھی۔ جن میں سر فہرست روئی اور کپڑا ہے۔ لیکن یہ دونوں بہت بےچینی کا باعث بنتے تھے۔ تو جب میں نے اپنی پہلی نوکری شروع کی تو اپنی پہلی تنخواہ سے میں نے پہلی دفعہ پیڈز خریدے۔ پھر یہ سلسلہ چل نکلا۔ لیکن ہر دفعہ پیڈز خریدنا میرے لئے پہلے سے زیادہ اذیت ناک عمل ہو گیا۔ مجھے لوگوں کے چہرے کے تاثرات سے گھن آنے لگی۔ بعض اوقات تو مجھے اپنے آپ سے گھن آنے لگتی اور شک گزرتا کہ کہیں واقعی میں ہی تو کوئی ناپاک شے نہیں! کئی دفعہ تو اپنے آپ کو عورت ہونے پر بھی کوسا کہ اس ملک میں عورت ہونا بھی کسی گناہ سے کم نہیں۔

میری اپنے والد سے شدید قسم کی دوستی ہے۔ کبھی کبھی میری والدہ میرا مذاق بھی اڑاتی ہیں کہ اپنے والد کو ”ابو یار“ کہ کر کون مخاطب کرتا ہے؟ میرے والد کو عرصہ دراز سے بواسیر کا مرض لاحق تھا۔ جس کا گاہے گاہے علاج چلتا رہتا تھا۔ کچھ عرصہ ہوا جب ابو کی پشت میں ایک cyst بن گیا تھا۔ جب معالج نے اس کا معائنہ کیا تو اس نے سرجری تجویز کی۔ ہم سب نے ڈرتے ڈرتے ابو کی سرجری کروائی۔ اس کے بعد ابو کو کافی عرصہ آرام رہا۔ لیکن چند برس بعد وہی cyst دوبارہ اسی جگہ نمودار ہوا۔ جس کے بعد ان کی دوسری سرجری ہوئی۔ کچھ عرصہ پھر آرام رہا لیکن پھر کہانی وہیں آ کھڑی ہوئی۔ وہ ایک بڑے سے دانے کی شکل میں ابھرتا، بھرتا اور پھر پھٹ جاتا۔ اس سے مسلسل خون رستا تھا۔ معالج نے پھر سے آپریشن کا مشورہ دیا لیکن اب کی بار ابو ایک اور آپریشن کے لئے تیار نہ تھے۔ ڈاکٹر نے بہت سمجھایا بھی کہ نئی ٹیکنالوجی آ گئی ہے جس سے یہ مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔ لیکن ابو نہ مانے۔

کچھ عرصہ تو ابو نے ایسے ہی گزارا کیا۔ وہ دانہ نما cyst پیپ سے بھرتا اور پھر وقت بے وقت پھٹ جاتا۔ مسلسل خون رسنے کے باعث ابو کے سارے کپڑے خراب ہونا شروع ہو گئے۔ تو ابو نے اس کا حل یہ نکالا کہ وہاں روئی رکھ لی جائے۔ لیکن پھر ابو کو احساس ہوا کہ روئی کے ساتھ کچھ مسائل ہیں۔ اوّل تو یہ کہ روئی شدید بےچینی کا باعث بنتی ہے خاص کر جب اس میں کچھ خون جذب ہو جائے۔ دوسرے یہ کہ وہ زخم کے ساتھ چپک جاتی ہے۔ اسے زخم سے علیحدہ کرنا بھی ایک مشقت ہوتی۔ پھر یہ سب مل کر از حد تکلیف کا باعث بنتا تھا۔ جب ابو اس ساری صورت حال سے گزر رہے تھے اور اس کا کوئی مستقل حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے تھے تب امی کو ایک نہایت عقلمندانہ تجویز سوجی۔ انہوں نے ابو کو مشورہ دیا کہ ”آپ یہ روئی بھی تو استعمال کرتے ہی ہیں نا۔ اور جب مقصد صرف خون جذب کرنا ہی ہے تو آپ یہ پیڈز کیوں نہیں استعمال کرتے؟ آرام دہ بھی ہیں اور آپ کے کپڑے بھی خراب نہ ہوں گے۔ “ بات ابو کو اچھی لگی اور ان کی سمجھ میں بھی آگئی۔ تو اس دن کے بعد سے ابو آج تک پیڈز استعمال کرتے ہیں۔

ابو کے اس فیصلے سے ابو کی زندگی میں کیا اثرات رونما ہوئے، اس کا اندازہ تو ابو کو ہی بہتر طور سے ہو گا۔ لیکن اس فیصلے کے بعد میری زندگی بہت سکون میں آگئی۔ اس دن کے بعد سے میں اور ابو Pads شیئر کرتے ہیں۔ ابو اپنے پیڈز اکثر گارڈ کے ہاتھ منگواتے ہیں۔ تو میں بھی اپنے پیڈز ابو کے ذریعے گارڈ سے ہی منگواتی ہوں۔ جب کبھی میرے پیڈز ختم ہوئے اور گارڈ بھی دستیاب نہ ہوا تو میں ابو کے پاس جاتی ہوں اور کہتی ہوں ”یار ابو وہ ذرا پیڈز تو دیں۔ میرے ختم ہو گئے ہیں۔ “ میری اس حرکت سے ابو کو بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ میرے پیریڈز آنے والے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).