ایک اور زینب


کہتے ہیں حوا کی بیٹی عزت لے کر پیدا ہوتی ہے اور آدم زاد کو عزت خود کمانا پڑتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔   اکیسویں صدی میں جب دنیا بھر کے انسان ترقی کا راگ الاپ رہے ہیں وہیں چند ایسے بھی واقعات ہیں جو اس نام نہاد ترقی  پر انسانی پستی کے ایسے بدنما دھبے بن کر ظاہر ہو رہے ہیں کہ انسانیت کی ترقی کا منہ کالا کر رہے ہیں۔   مشینوں کے اس دور میں جسموں سے کھلواڑ کا سلسلہ جس بے باکی و بے حیائی سے جاری ہے اس پر سوائے کف افسوس کے اور کچھ ملا نہیں جا سکتا۔

زینب اور اسماء کے واقعات میڈیا پر ہر آنکھ نے دیکھے اور ہر کان نے سنے۔ پھر ان واقعات کے بعد کئی اور واقعات رپورٹ ہوئے لیکن ان کو میڈیا ہائپ نہیں مل سکی۔   واقعہ آج بھی ایک ایسی ہی 6 سالہ بچی کا ہے۔ یہ ضلع پاکپتن کی تحصیل عارف والا  6 سالہ ملائیکہ ہے۔ اس کے ساتھ بھی درندہ صف شخص نے زیادتی کی جس کو علاقے میں عبدالرزاق عرف پپو کے نام سے جانا پہنچانا جاتا ہے۔ واقعہ کی ایف آئی آر درج ہوئی اور پھر وہی ہوا جو ہمیشہ سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔ پولیس اور حکومت کا گٹھ جوڑ  لیکن اب کی بار مبینہ طور پر مسیحا ڈاکٹر بھی اس گھناونے کھیل کا حصہ بنے۔   مبینہ طور پر ملزم کو علاقے کےارکان قومی و صوبائی اسمبلی کی پشت پناہی حاصل ہے یہ زیادتی کا شکار ہونے والے بچی کے والد کڑکتی دھوپ میں عین دوپہر کے وقت انتہائی بے بسی و لاچاری کے عالم بتا رہے تھے۔ غریب شخص کے پانچ بچے ہیں جن میں چار بیٹیاں ہیں اور ایک بیٹا ہے۔

رشید نے الزام لگایا کہ ملزمان نے پولیس اور ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر بچی  کا میڈیکل تبدیل کر وا لیا ہے۔ انصاف کے متلاشی رشید پاکپتن سے چلتا ہوا شہر اقتدار پہنچا ہے۔ چلچلاتی دوپہر میں رشید بس  چند جملے ہی کہہ پایا  “ہم نے پولیس حکام اور ہر جگہ درخواستیں دی لیکن داد رسی نہیں ہوئی۔ ملزمان ہمیں 25 لاکھ روپے دے کر کیس ختم کروانا چاہتے ہیں۔ ہمیں ڈرانے کے لئے ملزمان ہمارے گھر پر حملہ آور ہوئے۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ ملزمان کے خلاف دو مقدمات تو درج کیے گئے لیکن انہیں گرفتار نہیں کیا جا رہا۔ چیف جسٹس سے داد رسی کی اپیل کرتے اس شخص کو کیا معلوم کہ چیف جسٹس تو  اس وقت ملک میں ہی نہیں ہیں

جرائم کی روک تھام کےلئے بنائے گئے قانون پر عملدرآمد  ہی واحد حل ہے۔ اگر زینب کے ساتھ زیادتی اور قتل کرنے والے مجرم کو سزا دے دی جاتی تو شاید ایسے مزید واقعات سے بچا جا سکتا ہے لیکن شاید اندھے قانون کی پیچیدگیاں زیادہ ہیں یا پھر قانون پر عملدرآمد کے لئے کچھ اور وجوہات  ہیں  اس بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا

دنیا جرائم کی آماجگاہ بنتی جا رہی ہے۔ ایک طرف ترقی یافتہ ملکوں کے لڑکپن یعنی (Teen agers)  سکولوں میں فائرنگ کر کے دوسری بچوں کی جان لے رہے ہیں۔   تودوسری طرف سوشل میڈیا کی یہ نسل خود کو اذیت پہنچانے اور ہمدردیاں حاصل کرنے کےلئے خود کو ہی نفرت آمیز پیغامات بھیج رہے ہیں
ہم اگلی بار بات کریں گے خود کو نفرت آمیز پیغامات بھیجنے پر  کیا سوشل میڈیا کا اگلا ہیش ٹیگ  #IhateMe ہو گا  ؟

وقار حیدر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار حیدر

وقارحیدر سما نیوز، اسلام آباد میں اسائمنٹ ایڈیٹر کے فرائض ادا کر رہے ہیں

waqar-haider has 57 posts and counting.See all posts by waqar-haider