احمد بشیر کی غیر مطبوعہ کہانیاں – جموں والی سردار بیگم کی کہانی


احمد بشیر ایک حساس انسان، باشعور فرد، زیرک دانشمند اور کمال لکھاری ہی نہیں بلکہ ایک سچے، آزاد، نڈر، بیباک اور دلیر صحافی بھی تھے۔ ایسے لوگ اب نایاب ہی نہیں بلکہ ناپید ہو چلے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ احمد بشیر اسطوروں میں چھپا ایسا مردِ آہن، جو پچھلے زمانوں سے جڑا تھا اور اگلے زمانوں کے لئے بنا تھا۔

ایسا دور جب کئی بڑے لکھاری اور صحافی چڑھتے سورج کو سلام کیا کرتے تھے اور آمرِ وقت کی کاسہ لیسی، تلوے چاٹنے اور منافقانہ چپ جیسی روایتوں پر کار بند تھے یہی وہ مردِ آہن تھا کہ جس نے سرکاری نوکری کو جوتے کی نوک پہ رکھ کر اڑا دیا اور ایک بنجارا بنکر اپنی چار ننھی پریوں کے لئے رزقِ حلال کماتا رہا۔ وہ صدق و حق کی سرحدوں پر ایک سیمورائے، ایک جنگجو کی طرح قلم سے کاری وار کرتے رہے انہیں اکڑی ہوئی گردنوں کے سریے اپنی نخوت، حمیت اور آہن گر قلم سے پگھلانے میں ملکہ حاصل تھا۔

تمام عمر حق اور سچ کی سرحدوں پر دیوانہ وار لڑتے رہنا والا یہ سپاہی اپنی حسِ لطیف اور جمالیاتی ذوق کی اس طرح آبیاری نہ کر پایا جیسا کا اس کا حق تھا لیکن اس نے اپنے آنگن میں ایسے پھول کھلادیے جن کہ خوشبو آج بھی نیلم احمد بشیر، سنبل شاہد، بشری انصاری اور اسماء وقاص کی شکل میں گلستانِ فن کے کوچے کوچے میں مہکتی ہے۔

احمد بشیر نے اپنی آخری عمر میں کچھ یاداشتیں تحریر کی ہیں وہ سبھی کاغذات ان کے قلم کی وارث ان کی بڑی صاحبزادی محترمہ نیلم بشیر صاحبہ کے پاس موجود ہیں انہی گم گشتہ یاداشتوں میں سے ایک شذرہ میں آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گی۔

(یہ کہانی ان کی پھوپھی سردار بیگم کی ہے جسے انہوں نے تقسیمِ ہند کے تقریبا پچاس برس بعد گویا آج سے بیس برس قبل قلم بند کیا، میں نے اور نیلم بشیر صاحبہ نے اس کے ایک ایک حرف کو بغور مطالعہ کے بعد سپردِ قرطاس کیا ہے کہ قارئین تک اس کا ابلاغ اپنے درست جوہر کے ساتھ ہو پائے)

جموں والی سردار بیگم کی کہانی

میرا نام سردار بیگم ہے، میں احمد بشیر کی پھوپھی ہوں۔ 1947 میں ہم جموں میں رہا کرتے تھے جہاں میرے میاں شیخ محمد حسین سرکاری سکول میں سیکنڈ ماسٹر تھے۔
ہمارے چار بچے عصمت، ممتاز، ارشد اور دو ماہ کی پروین سبھی وہیں رہتے تھے، گھر ہمارا اپنا تھا۔ ماسٹر محمد حسین بڑے با اثر آدمی تھے، اگر وہ اتنے با اثر نہ ہوتے تو شاید ان کی جان بچ جاتی۔
جموں سے سیالکوٹ پندرہ بیس میل سے زیادہ نہیں مگر ریل اور بسیں رک چکی تھیں، جموں شہر میں سکھ اور ہندو شرنارتھی مسلمانوں کو للکارتے پھرتے تھے۔ پولیس سے بھی عبوری حکومت کے ہوم منسٹر سردار پٹیل کی ہداہت پر مسلمان افسروں کو نکالا جا چکا تھا۔ ڈوگروں کی آنکھوں میں سے خون ٹپکتا تھا۔ جموں کے مسلمانوں کو پتہ تھا کہ کوئی دم کی بات ہے پھر ہمارا خون کتے چاٹیں گے۔

جموں کے مسلمانوں نے مہاراجہ ہری سنگھ کو درخواستیں بھیجیں جو مختلف مراحل سے گزرتی بالآخر ڈپٹی کمشنر تک پہنچیں، انہوں نے اعلان کردیا کہ مہاراجہ بہادر اپنی مسلمان رعایا کے لئے نیک خواہشات رکھتے ہیں اور ان کی ہر ممکن حفاظت کی جائے گی۔ ان کے اطمینان کی خاطر فی الحال تیس بسوں کا انتظام کیا گیا ہے تاکہ مسلمان اگر چاہیں تو کچھ دنوں کے لئے سیالکوٹ چلے جائیں، بسوں کو سرکاری نگرانی میں ہی سرحد پار کرا دی جائے گی۔

تیس بسوں میں جموں کے سارے مسلمان بٹھائے نہ جا سکتے تھے۔ سیٹ حاصل کرنے کے لئے بھاگ دوڑ، آہ و زاری، رشوت اور سفارش کی وبا پھیل گئی۔ جانے والوں کے لئے فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ کیا ساتھ لیا جائے اور کیا ساتھ نہ لیا جائے مگر سب نے صرف زیورات اور ضروری کپڑے ساتھ لئے کیونکہ سب کو جلد واپس آنا تھا۔ ماسٹر محمد حسین نے اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے اپنے خاندان کے لئے سیٹیں حاصل کر لیں۔ رات بھر کوئی نہ سویا، گھر چھوڑنے کا دکھ اور پاکستان جانے کا شوق دونوں ہی بے اختیار جذبے تھے۔ رات بھر جو بے وسیلہ اور بے سہارا تھے روتے رہے کیونکہ وہ پاکستان کے دارالامان نہ پہنچ سکتے تھے، وہ رات غریبوں پر بڑی بھاری گزری۔

ماسٹر صاحب نے رات کو دیر تک اپنے ہندو اور ڈوگرے دوستوں سے ملاقاتیں کیں، پڑوسیوں سے رخصت لی اور ان سے درخواست کی کہ میرے گھر کی دیکھ بھال کرنا۔ چند ہی دن کی تو بات ہے۔ میں آدھی رات کو اٹھ کر بچوں کو نہلا، نئے کپڑے پہنا کے اور فجر کی اذان کے وقت ناشتہ کھلا کے فارغ ہو گئی۔ بسوں کو دو گھنٹے کے بعد سیالکوٹ روانہ ہو جانا تھا اور ہماری فرنٹ سیٹ بُک تھی۔ میرے میاں بہت سیانے آدمی تھے انہوں نے زیورات ایک ہی پوٹلی میں رکھنے کے بجائے میرے اور بچوں کے کپڑوں میں سی دیے، نقدی بھی اسی طرح چھپا دی، بڑے نوٹ البتہ انہوں نے اپنی خفیہ جیبوں میں رکھ لئے۔

مہاراجہ بہادر نے اپنی مسلمان رعایا کی سلامتی کے لئے انتظامات کر دیے تھے مگر اس زمانے میں کچھ بھی ہو سکتا تھا اس لئے میرے میاں نے تانبے کی بڑی رکابیاں جن میں ہم مسلمان پلاؤ کھاتے ہیں اپنے پیٹ، سینے اور کمر پر کس کر باندھ لیں تا کہ کوئی موذی برچھا مارے تو ان کا بچاؤ ہو جائے، چھوٹی رکابیاں انہوں نے میرے اور بچوں کے جسموں پر باندھ دیں اور یوں بکتر بند ہو کر ہم وقت سے پہلے ہی اڈے پر پہنچ گئے۔ اڈے پر ایک جمِ غفیر تھا، عورتیں اور بچے جن کے پاس سیٹیں نہیں تھیں ایک ایک کے آگے ہاتھ جوڑ رہے تھے کہ کسی طرح ہمیں بھی بٹھا لو، بس کے اندر بیٹھنے والوں کو ان سے بڑی ہمدردی تھی مگر وہ یہی کہہ سکتے تھے کہ تم دوسرے پھیرے میں آ جانا۔

مہاراجہ کے پہریدار ڈوگرے اور بسوں کے سکھ ڈرائیور بڑے رحمدل تھے انہوں نے کچھ پیسے لے کر بعض کو بسوں کی چھتوں پر بٹھا لیا۔ سارے ڈوگرے اور سکھ شقی القلب نہیں ہوتے۔ بسیں چلیں تو مسافروں کے چہروں پر رونق آ گئی۔ جموں سے نکلتے ہی انہوں نے پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعرے لگانے شروع کر دیے۔ ہم گھنٹے بھر میں دارالامان پہنچنے والے تھے، بال بچے اور زیور کپڑا ہمارے ساتھ تھا۔ بیشتر کی رشتہ داریاں سیالکوٹ میں تھیں، وہ اپنے اپنے عزیزان کی باتیں کرنے لگے، میں نے قرآن شریف کی تلاوت اور کلمے کا ورد شروع کر دیا اور باقی تمام عورتوں نے سر ڈھانپ لئے، شہر سے نکلتے ہی سڑک سنسان ہوگئی، چاول کی ہریالی پھوٹ رہی تھی مگر کسان کوئی کام کرتا دکھائی نہ دیتا تھا، دیہات کے کنوؤں پر خاموشی چھائی ہوئی تھی، کھاٹ پر بندھے بیلوں کی گھنٹیوں اور لاریوں کی گھرر گھرر کے سوا کچھ سنائی نہ دیتا تھا، آسمان پر کوئی چیل تک نہ اڑتی تھی مگر کسی نے ان باتوں پر غور نہ کیا سب آگے کی طرف دیکھتے تھے۔
یا اللہ تیرا شکر۔ یا اللہ تیرا فضل۔ ۔ ۔

سوجیت گڑھ کے قریب جہاں سے پاکستان کی سرحد بہت دور نہیں تھی بسیں سیدھی سڑک پر جانے کے بجائے اچانک کچی سڑک کی طرف مڑ گئیں۔ لاریوں میں ہاہا کار مچ گئی، تمام عورتوں کےسروں سے چادریں اتر گئیں۔ ہمیں کدھر لے جا رہے ہو، کہاں لے جا رہے ہو کا شور مچ گیا۔ میرا کلیجہ دھک دھک کرنے لگا، ماسٹر جی بھی گھبرائے ہو ئے تھے۔

کہانی کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے “اگلا صفحہ” کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2