پاکستان کے خلاف اور دوسروں کے حق میں بیان


ہم نے سوچا تھا رمضان میں لکھنے سے چُھٹی کریں گے۔ لکین نواز شریف کے پاکستان میں رہتے ہوئے پاکستان کے خلاف اور دوسروں کے حق میں بیان دینے کا سُن کر پھر قلم اُٹھ گیا۔ پاکستان کے کی عزت ہماری عزت ہے۔ اور اس ملک کی وجہ سے اپ کس مقام پر پہنچے میاں صاحب آپس میں ہزاراختلاف ہوں لکین اپنے ہی ملک کے خلاف بات کرنے والے کی کوئی عزت نہیں ہوتی ہے۔ ہم لوگ عام سے بندے ہیں اور ہم سب والوں نے ہمیں موقع دیا ہے ہماری پہچان بنائی اور اگر کل ہماری اس ادارے سے کوئی ناراضگی ہو جائے تو کیا ہم دوسرے ادارے میں جاکر ان کی برائی شروع کردیں گے۔ اگر کریں گے تو یقیناٌ ہم خودغرض اور مفاد پرست ہوں گے۔ مسلمان جو دُنیا میں مار کھا رہا ہے یہی اس کی وجہ ہے کہ ہم اپنی ذات کا سوچتے ہیں۔

ہماری فوج سے غلطیاں ہوئی ہوں گی یا کروائی گئی ہوں گی کیونکہ کئی کام فوج کو حکومت کے کہنے پر بھی کرنے پڑتے جو اچھے ہوں تو سیاست دان سہرا اپنے سر لے کر ووٹ لیتے ہیں۔ جیسا کہ کراچی کا امن ضرب عضب جیسے کام جن کا نتیجہ اچھا نکلے۔ اور جو بُری ہوں فوج پر ڈال کر کوششش کی جاتی ہے کہ اس کو بدنام کیا جائے۔ دنیا کا کوئی بھی بندا اپنی فوج اور اپنے ملک کو بُرا نہیں کہتا سوائے ہمارے کیا وہ فوجی ہمارے نہیں ہیں جو سردی گرمی میں سرحدوں پہ کھڑے ہوتے ہیں۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہربندہ اقتدار میں آنے سے پہلے فوج کا سہارا لیتا ہے۔

ہسٹری اٹھا کر دیکھ لیں سب کو فوج لے کر آ ئی ہے۔ جب اقتدار مل جاتا ہے پھر وہی فوج بُری بن جاتی ہے۔ آخر یہ کب تک کھیل چلتا رہے گا۔ لیکن عافیہ صدیقی نے جُرم کیا تو اس کو سزا ملی اور مل رہی ہے۔ مگر کیا ریمنڈ ڈیوس کا جُرم بہت چھوٹا تھا یا ہمارے خون سستے ہیں۔ ایک مُلک کی عزت کو برقراررکھنے کے لئے ظرف کا ہونا ضروری ہے۔ پُرانے زمانے میں کسی نے ملازم بھی رکھنے ہوتے تھے۔ تو پرکھ کے رکھتے تھے صرف وافاداری دیکھتے تھے کہ ہزار مشکلات کے باوجود اپنے پہلے مالک کے راز نہ کھولتا ہو اس کو چُنتے تھے۔ یہاں تو ملکی راز کھولے جارہے ہیں۔ جب تک عہدے پہ ہوتے ہیں تو سب ٹھیک ہوتا ہے جب ہی عہدے سے فارغ ہوتے ہیں برائیاں نکالنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور باہر جاکر یا انڈیا کو انٹرویو دیتے ہیں۔ کبھی ان لوگوں نے بھی پاکستان میں انٹرویو دیے ہیں؟

مشرف نے اپنے مفاد کی خاطر ہماری فوج کی ساکھ بھی برباد کردی دس سال کی حکومت کے بعد دوبارہ آنے کا  لالچ تھا تو مشرف نے باہر جاکر ایبٹ آباد کے بارے میں بات کی تاکہ سارا ملبہ زرداری کے ذمے لگ جائے۔ یہ سب لوگ اپنے مفاد کے لئے باہر والوں خوش کرتے ہیں اور نقصان ملک کا ہوتا ہے۔ اگر باہر والے طالبان کے خلاف ہوں تو یہ انٹرویو دیتے ہیں کہ ہمارا فلاں طالبان ہے۔ اگر باہر والے انڈیا کے حق میں ہوں تو یہ جاکر انٹرویو دیتے ہیں کہ ہماری فوج جھوٹی ہے انڈیا سچ کہ رہا ہے۔ اگر باہر والے داڑھی کے خلاف ہوں تو حافظ سعید کو پیش کردیا جاتا ہے۔ جو بھی باہر جاکر ایسا کرتے ہیں اقتدار میں آنے کی خاطر کرتے ہیں۔ لیکن نواز شریف نے سب اقتدار اقتدار میں دوبارہ آنے کے لئے نہیں کیا اس سوال کا جواب سمجھ سے باہر تھا۔ مگر اب ایسا لگتا ہے کہ جیسا کہتے ہیں اپنے پاؤں پہ کلہاڑی مارنا لیکن یہاں بھائی کے پاؤں پہ کلہاڑی مارنے کی کوشش کی گئی ہے۔

نواز شریف نے والدہ کے دباؤ میں آکر شہباز شریف کو پارٹی تو دے دی ہے۔ اب اس کی ڈور کاٹنے کی کوشش ہے۔ ساری اعوام صدر ممنون تو ہے نہیں کہ چُپ رہے۔ سوال تو ہوں گے اور الیکشن قریب ہیں اور یہ بات کرکے اپنے ہی بھائی کو مشکل میں ڈالا ہے۔ بچے کھیل رہے تھے سائیکل کی ریس لگائی تو بچہ کہنے لگا ماما میں ہی جیتوں گا میرا بھائی نہ جیتے میں نے کہا بیٹا اگر اپ ہار گئے تو وہ آپ کا بھائی ہی جیتے گا تو اچھا ہے ورنہ تو گورے جیت جائیں گے۔ بچہ کہتا ناں میں نہ جیتوں تو میرا بھائی نہ جیتے چاھے گورے جیت جائیں میں نے کہا واہ بیٹا اگے جاکر نواز شریف ہی بنو گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).