‘پہلا سبق یہ ہے کہ ذیابیطس کوئی بیماری نہیں‘


ذیابیطس

شوگر مانیٹر کرتے رہیں تاکہ پتہ چلے کہ دن کے کس وقت وہ بڑھتی ہے یا کم ہوتی ہے

میں ذیابیطس کا مریض ہوں اور تقریباً اٹھارہ سال سے ہوں۔ اس دوران میرے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا جو ذیابیطس کے اکثر مریضوں کے ساتھ ہوتا ہے، یعنی اس شوگر کی بیماری نے دوسری بیماریوں کو جنم دیا اور سلسلہ بڑھتا رہا۔

لیکن میں نے ان اٹھارہ برسوں میں اس بیماری سے بہت کچھ سیکھا اور آج بھی سیکھ رہا ہوں۔ اور میرے لیے سب سے پہلا سبق یہ ہے کہ یہ کوئی بیماری نہیں۔

مجھے پتہ ہے کہ آپ لوگ حیران ہوں گے کہ یہ کیا کہہ رہا ہے۔ کہیں اس کی شوگر تو کم نہیں ہو گئی یہ پھر کچھ زیادہ ہی ہو گئی ہے۔ لیکن یہ دونوں چیزیں نہیں ہیں۔ مغرب میں اکثر ڈاکٹر یا کنسلٹنٹ اسے بیماری نہیں بلکہ ایک ‘کنڈیشن’ سمجھتے ہیں جو کہ اکثر زندگی گزارنے کے طور طریقے بدل کر کنٹرول کی جا سکتی ہے۔ کئی ایک مریضوں نے تو اسے جڑ سے ہی ختم کر دیا ہے۔

مجھے یاد ہے کہ جب میں پہلی دفعہ ڈاکٹر کے کلینک سے ٹیسٹ کروا کے باہر آیا تو اور دوست جو کہ میرا وہاں انتظار کر رہا تھا بتایا کہ ڈاکٹر کہہ رہا ہے کہ آپ کا شوگر لیول اس سطح پر ہے جہاں آپ کو ذیابیطس ہو سکتی ہے تو میرے دوست کے منہ سے فی البدیہ نکلا ‘ہاؤ سویٹ’۔

یقین کیجیئے کہ اس ‘ہاؤ سویٹ’ کا بھی آپ کی بیماری کے کنٹرول میں بہت ہاتھ۔ مطلب کہ خوش رہیں۔ اگر آپ نے ذہنی طور پر اسے اپنے آپ پر حاوی نہ ہونے دیا تو آپ اس کے ساتھ ایک اچھے ‘لائف پارٹنر’ کے طور پر بھی رہ سکتے ہیں۔

ذیابیطس

انسولین کا انجیکشن آپ کو وہ فوری انسولین مہیا کر دیتا ہے جو خوراک کو توڑنے کے لیے کافی ہے

کچھ چیزیں جو میں نے سیکھیں

بہت سے لوگ اگر شوگر ہو جائے تو انجیکشن لگوانے سے گھبراتے ہیں اور ڈاکٹر سے اصرار کرتے ہیں کہ وہ انھیں گولیاں دے۔ گولیاں ٹھیک ہیں لیکن وہ انسولین کا ڈائریکٹ بدل نہیں ہیں۔ انسولین کا انجیکشن آپ کو وہ فوری انسولین مہیا کر دیتا ہے جو خوراک کو توڑنے کے لیے کافی ہے۔ بصورتِ دیگر شوگر آپ کے خون میں شامل ہو کر جسم کے دوسرے اعضا مسئلہ دل، گردوں اور آنکھوں وغیرہ کو متاثر کرتی ہے۔ انسولین ذیابیطس کو صحیح نہیں کرتی لیکن اس کو ‘مینیج’ کر سکتی ہے۔

اگر آپ کو ڈاکٹر نے واقعی منع نہیں کیا تو جو چاہے کھائیں لیکن اس بات کا احتیاط کریں کہ وہ زیادہ نہ ہو، آپ انجیکشن لے رہے ہوں اور آپ کوئی ایسی ایکٹیویٹی یا ورزش ضرور کریں کہ جو آپ نے کھایا ہے وہ ٹوٹ جائے، یعنی توانائی گلوکوز وغیرہ علیحدہ ہو جو جسم کے پٹھوں اور دوسرے اعضا کو چاہیئے اور فضلہ علیحدہ۔ شوگر کو ہر حالت میں ٹوٹنا چاہیئے۔ اگر ایسا نہ ہو تو یہ جسم کے حصوں میں اسی طرح شامل ہوتی ہے اور انھیں تباہ کرتی ہے۔

شوگر مانیٹر کرتے رہیں تاکہ پتہ چلے کہ دن کے کس وقت وہ بڑھتی ہے یا کم ہوتی ہے۔ اس سے آپ اپنی روٹین بنا سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ کھانے کے فوراً بعد ہی مانیٹر کرنے نہ بیٹھ جائیں کیونکہ گلوکوز کے ٹوٹنے اور خون کے ذریعے جسم کے خلیوں میں توانائی پہنچانے میں دو گھنٹے تک لگ سکتے ہیں۔

اچھی خبر یہ ہے کہ اگر صحت مند کاربو ہائیڈریٹس اور فائبر والی غذا کھائیں تو آپ کی بلڈ شوگر خود بخود ہی کم ہو جاتی ہے۔ ورزش سے جسم کی انسولین کے متعلق حساسیت بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ زیادہ بلڈ شوگر جذب کر سکتا ہے۔

اور اگر آپ ہائی پو نہیں ہیں یعینی کہ آپ کی شوگر اکثر خطرناک سطح سے کم نہیں چلی جاتی اور آج کل آپ روزہ بھی رکھنا چاہتے ہیں تو ‘ٹرائی’ کر کے دیکھ لیں۔ جن لوگوں کی شوگر بہت زیادہ اوپر نیچے نہیں جاتی وہ شاید عام لوگوں کی طرح روزہ رکھ سکتے ہیں لیکن اس کے لیے آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ کس وقت آپ کی شوگر گر سکتی ہے۔ اور اگر ایسا ہے تو خدا کی مرضی اس میں آپ کا ہاتھ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32189 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp