یہ چہرے ہمارے چہرے کیوں نہیں ہیں؟


آفس سے چھٹی ہوئی تو میں پیدل سفر کرتے کرتے ریڈنگ بک شاپ پر جاپہنچا،اور ایک کتاب پڑھنے میں مصروف ہو گیا، اے سی کی ٹھنڈک تھی، اس لئے کتاب کا مطالعہ کرنے میں مزہ آنے لگا۔ ریڈنگ بک شاپ والوں کی خوبی یہ ہے کہ کوئی کتاب خریدے یا نہ خریدے ،چاہے کتنی دیر وہاں بیٹھ کر کتاب کا مطالعہ کرتا رہے ،اسے کوئی وہاں سے نہیں نکال سکتا ۔مطالعہ کرتے کرتے بہت وقت بیت گیا،شاید دو گھنٹوں سے بھی زیادہ وقت گزر چکا تھا ۔رات کے دس بجنے والے تھے ۔دل چاہا رہا تھا کہ یہ کتاب خرید لوں ،لیکن کتاب کی قیمت بہت زیادہ تھی ،اور بدقسمتی سے آفس سے تنخواہ بھی ابھی نہیں ملی تھی ۔اس لئے سوچا پھر کسی دن چکر لگاتو یہ کتاب خرید لوں گا۔ بک شاپ سے باہر نکل کر کلمہ چوک کی سڑک پر پیدل سفر شروع کیا ہی تھا کہ پیچھے سے آواز آئی،میاں ٹھہریئے ،مڑکر دیکھا تو سفید کپڑوں میں ملبوس انسان مجھے ہاتھ کے اشاروں سے بلارہا تھا ۔پہلے سوچا،خیریت ہو ۔مجھے لگا کہیں وہ یہ تو نہیں سمجھ رہے کہ میں ان کی کتاب چھپا کر بھاگ رہا ہوں۔خاموشی سے پیچھے مڑا اور اس شخص کی طرف بڑھنے لگا ۔اس نے گرم جوشی سے میرا استقبال کیا اور کہا ،میاں بہت دیر سے تم بک شاپ میں کتاب پڑھ رہے تھے ۔کافی دیر سے میں تمہیں دیکھ رہا تھا ۔کیا ہوا کتاب پڑھ لی؟ میں نے کہا سر،بس کچھ دلچسپ مطالعہ ہوگیا ہے۔اس نے کہا ،کہاں جانا ہے،میں نے کہا سر کبھی کبھی میں پیدل مارچ کرتا ہوں ،آج پیدل مارچ کرنے کا دن ہے ۔کچھ معلوم نہیں یہ سفر مجھے کہاں لے جائے؟وہ مسکرایا اور فرمایا دوست آج میرے ساتھ چلو گے؟میں نے کہا ،ٹھیک ہے سر اکھٹے چلتے ہیں ۔اس کے پاس گاڑی تھی ،عمر بھی محترم کی ساٹھ سال کے قریب ہو گی ۔ہم دونوں گاڑی میں بیٹھے اور کلمہ چوک کے راستے سے اچھرہ پہنچ گئے ،اس نے کہا ،ملک شیک پینے کا دل کررہا ہے ،وہ بھی انارکلی حافظ جوس والوں سے ،میں نے کہا جی ضرور وہیں چلتے ہیں ۔اچھرہ سے چئیرنگ کراس مال روڈ کے راستے سے ہوتے ہوئے حافظ جوس شاپ پر پہنچ گئے ۔اب رات کے گیارہ بج چکے تھے ،میدان میں کرسیاں سجی تھی، ہم دونوں کرسیوں پر براجمان ہو گئے۔ ویٹر کو دو اسٹابری ملک شیک کا آرڈر دیا ۔اب ہم دونوں نے باقاعدہ ایک دوسرے کا تعارف کرایا ۔محترم کا نام زاہد حسین تھا ،ایک ریٹائرڈ بیورو کریٹ تھے ۔گفتگو کے دوران میں نے کہا ،آپ ایک اچھی شخصیت کے حامل انسان ہیں ۔میرا یہ کہنا ہی تھا کہ انہوں نے اپنے آپ کو گالیاں نکالنا شروع کردی ،کہنے لگے ،دوست یہ شخصیت کچھ نہیں ہوتی،میں ایک جھوٹا ،فریبی اور کرپٹ انسان رہا ہوں ۔اب شاید اپنے آپ کو سدھارنے کی اور بہتر بنانے کی کوشش کررہا ہوں، میری کوئی شخصیت نہیں ہے،اب ایک فرد بننے کی کوشش کررہا ہوں ۔اس نے کہا،میاں یہ شخصیت ایک خوفناک بھیڑیے کی طرح ہوتی ہے ۔یہ جعلی اور نقلی ہوتی ہے ۔یہ منافق معاشرہ ہے جس نے انسان کی انفرادیت کو تباہ کردیا ہے اور اس پر شخصیت کا بوجھ ڈال دیا ہے ۔ شخصیت انسان پر نافذ کی جاتی ہے،یہ ایک ماسک کی طرح ہے ۔لیکن انفرادیت انسان کی اصلی پہچان ہے ۔ایک فرد کی انفرادیت قدرت کا خوبصورت تحفہ ہے، شخصیت تو بہت بدصورت ہے،اسے میں نے چالیس سال تک جھیلا ہے ۔اس نے کہا ،جب میں شخصیت سے مالا مال تھا تو اس وقت انفرادیت سے مکمل ناواقف تھا ۔میرے اندر شخصیت کے کینسر کی نشوونما ہوتی رہی ،اب جاکر معلوم ہوا ہے کہ میں کس قدر بدقسمت تھا ۔شخصیت انسان کے اندر کے خلاء کو تو بدبودار ویلیوز سے بھر دیتی ہے، ساتھ ساتھ انسان پر قبضہ بھی کر لیتی ہے ۔انسان اس شخصیت سے جب تک نجات حاصل نہیں کریں گے ،تب تک وہ جعلی اور فراڈ ہی رہیں گے ۔اس نے کہا بیٹا انفرادیت پرستی میں انا نہیں ہوتی ،یہ خالص ہوتی ہے ۔شخصیت میں غصہ ہوتا ہے،تشدد کے عناصر ہوتے ہیں ،کسی پر غلبہ پانے کی خواہش ہوتی ہے ،لیکن انفرادیت پرست انسان میں اس طرح کے امراض نہیں ہوتے ۔انفرادیت پسندی خاموشی کا نام ہے،یہ محبت سے مالا مال ہوتی ہے۔اس میں ہمدردی ،پیار اور احساس ہوتا ہے ۔اس معاشرے میں ہر انسان شخصیت کی گندگی سے بھرپور ہے ۔جب تک یہ گندگی نہیں نکلے گی ،انسان اسی طرح منافق ،جھوٹا اور نام نہاد مہذب رہے گا،شخصیت کی وجہ سے انسان اپنے اوپر حق جتانا ہی بھول گیا ہے ۔انسان اپنے آپ کو تو تباہ کردیتا ہے ،لیکن وہ شخصیت سے پیچھا چھڑانے کے لئے تیار نہیں ۔

میں نے زاہد حسین سے پوچھا، اپنے آپ کو تباہ کیسے کیا جاتا ہے؟ انہوں نے کہا شخصیت کی آلودگیوں کی وجہ سے انسان اپنے آپ کو تباہ کردیتا ہے۔اپنے آپ کو تباہ کرنا مطلب غلام بننا ہے ،کسی انسان کا غلام ،کسی معاشرے کا غلام ،کسی الہامی نظریئے کا غلام ، اقتدار کا غلام اور کسی کی چاہت کا غلام ۔یہ سب شخصیتیں غلام ہیں ۔انفرادیت پسندی انسان کو آقا بناتی ہے ،اسے حقیقی اور جینوئن بناتی ہے ۔صرف خواب دیکھنے والا نہیں بناتی ۔انفرادیت پسندی کسی بھی انسان کو اس کے وجود کی خوبصورتی سے واقف کرتی ہے ۔ہم انسان شخصیت کی دنیا میں کھو گئے ہیں ۔اس لئے ہم انسان نہیں بلکہ سائے ہیں ۔خوفناک اور ڈراونے سائے ۔اس انسان کے اندر غصہ ہے،حسد ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ شخصیت پرست ہے ۔میں نے کہا سر یہ انفرادیت کیا ہے؟ زاہد حسین نے کہا ،بیٹا ،انفرادیت انسان کا حقیقی خزانہ ہے ۔انسان اسی کے ساتھ پیدا ہوتا ہے ۔شخصیت تو انسان معاشرے سے خریدتا ہے یا اسے ادھار لیتا ہے ۔شخصیت انسانی ملبوسات کی طرح ہے ۔ایک بچہ ننگا پیدا ہوتا ہے ۔پھر اس کا ننگا پن معاشرہ ڈھانپتا ہے۔ معاشرے اسے کپڑے فراہم کرتا ہے ،اسے نظریاتی بناتا ہے ،اسے منافق اور جھوٹا بناتا ہے ،اسے بدکردار شخصیت بناتا ہے۔ بچے کی انفرادیت کو انسانوں کا یہ معاشرہ پہلے دن سے ہی ڈھانپ دیتا ہے یا چھپا دیتا ہے ۔کیونکہ انفرادیت پسندی میں بغاوت ہوتی ہے جو کسی صورت معاشرے ،مولوی ،سیاستدان اور جرنیل کو قبول نہیں ۔شخصیت فرد کا نام نہیں ۔یہ سماج کا دیا گیا تحفہ ہے ۔اس لئے شخصیت فطری نہیں سماجی ہوتی ہے ۔معاشرہ چاہتا ہے کہ ہر انسان کی کوئی نہ کوئی شخصیت ہو کیونکہ انفرادیت معاشرے میں کشمکش پیدا کرتی ہے۔ شخصیت یا پرسنالیٹی یونانی لفظ ماسک سے نکلی ہے۔ یونانی ڈراموں میں اسٹیج کے اداکار ماسک کا استعمال کرتے تھے ۔اس ماسک سے وہ اپنے حقیقی چہرے کو چھپا دیتے تھے اور کسی اور کا چہرہ سجا لیتے تھے۔اس لئے شخصیت انسان کا حقیقی چہرہ نہیں ہے۔

جب انسان شخصیت سے نجات پا جائیں گے تو تب ہی وہ اصلی اور حقیقی چہرے کے ساتھ نمودار ہوں گے ۔ایسا انسان جو انفرادیت لیکر آئے گا اور اسی کے ساتھ ہی نشوونما پائے گا وہ نیا انسان ہوگا اور وہی ایک نئی انسانیت کو جنم دے گا ۔یہ انسان حقیقی نہیں ،انہوں نے اپنے چہروں پر لاکھوں چہرے سجا رکھے ہیں ۔ان کا اپنا چہرہ کہاں ہے ،انہیں معلوم نہیں ۔کبھی یہ انسان درندہ بن جاتا ہے ،کبھی ہٹلر بن جاتا ہے ،تو کبھی کچھ اور،یہ سب شخصیت پرستی کے کارنامے ہیں ۔زاہد حسین کی گفتگو جاری تھی تو میں نے مداخلت کرتے ہوئے کہا،سر یہ ایگو یا انا کیا چیز ہے اور اس کا شخصیت سے کیا تعلق ہے ؟زاہد صاحب نے کہا ،بھائی ایگو یا انا شخصیت کا مرکز ہوتی ہے۔اور تمام معاشرہ اسی ایگو پر چل رہا ہے ۔اسی وجہ سے انسان انسانیت کی بربادی کررہا ہے ۔یہ ریاست،نام نہاد اسٹیبلشمنٹ یہ تمام جھوٹ ہیں ،سب منافقت پر کھڑے ہیں ۔اور اس کی وجہ یہ شخصیت پرستی اور ایگو ہے ۔شخصیت دھوکے بازی کانام ہے ،انفرادیت انسان کی اصلیت ہے۔ منٹو انفرادیت پسند تھا ۔جب ایگو اور شخصیت انسان سے نکل جائیں گی تو تب ہی شفاف، ذہین، خوشحال، پر سکون، حقیقی اور زندہ انسان جنم لے گا ۔جس کا ایک ہی چہرہ ہو گا جو اس کا اپنا ہوگا ۔اس نے کہا انفرادیت پسندی انسانی روح کا گیت ہے۔ رات کے دو بج چکے تھے ،چہل پہل اب بھی برقرار تھی، ہر طرٖف شخصیتیں ہی شخصیتیں تھی ، نقلی چہروں کا راج تھا۔ اب زاہد حسین وہاں سے جوہر ٹاؤن روانہ ہو گئے اور میں پیدل گھر کی طرف انسانوں کے چہروں کو دیکھتا دیکھتا گھر پہنچ گیا  گھر پہنچتے ہی میں نے آیئنے میں اپنا چہرہ دیکھا ،تو پہلی دفعہ مجھے احساس ہوا کہ میں بھی تو ایک شخصیت ہوں،یہ چہرہ بھی تو میرا چہرہ نہیں ۔اسی وقت سے اب تک اپنے چہرے کی تلاش میں ہوں ۔کسی کو کہیں میرا چہرہ ملے تو پلیز مجھے ضرور اطلاع دیں ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).