چھ منٹ اور بیس سیکنڈ کا انقلاب


چھ منٹ اور بیس سیکنڈ۔ بس اتنا ہی وقت تھا، جس میں میرے سترہ دوست مجھ سے چھن گئے۔ چھ منٹ اور بیس سیکنڈ، میرے چھوٹے سے شہر میں ہر ایک کی زندگی ہمیشہ کے لیے بدل گئی۔ وہ شام بہت قیامت خیز تھی۔ وہ شام جب ہم میں سے کوئی کچھ جانتا نہیں تھا، کچھ سمجھتا نہیں تھا۔ ابھی لاشوں کی شناخت ہونی تھی۔ ابھی درد کو آنسو میں ڈھلنا تھا۔ ابھی دہشت کو نیا چہرہ عطا ہونا تھا۔ الم کا یہ سفر ابھی قدموں سے لپٹا نہیں تھا۔ زندگی نے ابھی چھ فٹ گہری قبر میں مٹی نہیں اوڑھی تھی۔ چھ منٹ اور بیس سیکنڈ۔ میرے دوست اب نہیں ہیں۔ ان میں سے کوئی مجھ سے  اب شکایت نہیں کرے گا کہ پیانو کی مشق سے اس کی جان جاتی ہے۔   صبح سکول کے دروازے پر بھائیوں، بہنوں اور دوستوں کے ساتھ کتنوں کی کھلکھلاتی ہنسی اب سنائی نہیں دے گی۔ کھیل کے میدان میں کچھ جوتے تنہا پڑے ہیں۔ مذاق میں کی گئی کتنی ہی باتیں گم ہو گئی ہیں۔ کیمپس کے راستوں پر اداسی بچھی ہے اور۔

ایما گونزالز کی آواز میں غصہ تھا اور آنکھوں سے پانی بہتا تھا۔ ایک ایک کرکے ا۔ س نے اپنے سترہ دوستوں کے نام لیے۔ بولتے ہوئے اب اسے ایک منٹ اور چوالیس سیکنڈ ہو گئے تھے کہ وہ اچانک خاموش ہو گئی۔ تاحد نگاہ لاکھوں کا مجمع تھا اور فضا میں ایک آواز نہیں تھی۔ ایما کی آنکھوں سے آگ برستی تھی اور گالوں پر پانی بہتا تھا پر وہ چپ تھی۔ کسی نے کوئی نعرہ نہیں لگایا۔ سب ایما کی چپ میں چپ تھے۔ ایک منٹ گزرا، دو منٹ گزرے، تین منٹ گزرے، پھر مجمع کی چپ ٹوٹی۔  ”پھر نہیں“، ”پھر نہیں“ کے دیوانہ وار نعروں کی نوجوان آوازیں اب ہر طرف تھیں۔ پھر یہ نعرے مدھم ہوتے گئے۔ اب سب پھر خاموش تھے۔ ایما سٹیج سے ہلی نہیں تھی۔ چار منٹ اور چھبیس سیکنڈ کی خاموشی کے بعد ایما نے مائیک اپنے قریب کیا اور بولی۔ ”چھ منٹ اور بیس سیکنڈ“

ایک نظر اس نے حد نگاہ تک پھیلے ہجوم پر ڈالی۔ اس کی آواز لوٹ آئی تھی  ”جب میں نے اسٹیج پر قدم رکھا تھا تب سے اب تک چھ منٹ اور بیس سیکنڈ گزر گئے ہیں۔ گولیاں چلنی بند ہو گئی ہیں۔ جلد ہی قاتل اپنی رائفل رکھ کر فرار ہو جائے گا۔ ابھی اس کی گرفتاری میں بہت وقت ہے۔ سترہ آوازیں اب کبھی سنائی نہیں دیں گے۔ اپنی زندگی کے لیے تمہیں خود لڑنا ہے اس سے پہلے کہ کوئی اور یہ لڑائی لڑے“

 لاکھوں کے مجمع کو بھی اب آواز مل گئی تھی۔ تحسین کے شور میں ایما اب اسٹیج سے اتر آئی تھی۔ اس کی آنکھوں میں اب بھی آگ تھی اور گالوں پر ابھی بھی پانی بہتا تھا۔

ایما گونزالز کی عمر اٹھارہ سال ہے۔ ایما فلوریڈا کے سٹون ڈگلس ہائی سکول کی طالب علم تھی۔ چودہ فروری 2018 کو اس سکول میں امریکی تاریخ کا بدترین قتل عام ہوا جب نکولس کروز نامی انیس سالہ نوجوان نے آٹومیٹک ہتھیاروں سے فائرنگ کر کے چھ منٹ اور بیس سیکنڈ کے اندر چودہ طالب علموں اور تین ملازمین کو ہلاک کر دیا۔ ایما بہت سے اور طالب علموں کی طرح اس قتل عام کی شاہد اور گواہ ٹھہری، اور اس غم کی وارث جو اس حادثے کی دین تھا۔

ایما گونزالز ایک مختلف سی لڑکی ہے۔ وہ اکثر ایک فیشن ایبل چیتھڑا جین اور ٹی شرٹ میں ملبوس ملے گی۔ اس کے شانوں پر زلفیں نہیں لہراتیں کیونکہ اس نے اپنا سر شیو کیا ہوا ہے۔ وہ کھل کر اپنے جنسی رجحانات پر بات کرتی ہے اور اپنے آپ کو بائی سیکسویل کہتی ہے۔ سکول میں وہ ہم جنس اور غیر ہم جنس اتحاد کی صدر تھی۔ سکول کے سائنسی پراجیکٹس میں فعال، تخلیقی لکھاری اور فلکیات میں گہری دل چسپی رکھنے والی ایما اب امریکہ کے نوجوانوں کی آواز ہے۔ سکول کے حادثے کے تین دن بعد ایما نے اپنا پہلا عوامی خطاب کیا جسے سننے ہزاروں لوگ اکٹھے ہوئے۔ ایما کا مقصود صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ کسی طرح امریکی مقننہ کو اس بات پر قائل کیا جا سکے کہ ہتھیاروں تک عام شخص کی رسائی کا قانون بدلا جا سکے۔ ایما کا ایک ہی نعرہ ہے ”پھر نہیں“۔ ایما کی خواہش تھی کہ پھر کبھی امریکہ میں کوئی قتل عام نہ ہو۔ یہ خواہش پوری نہ ہو سکی اور 18 مئی کو سانتا فے ٹیکساس میں ایک دفعہ پھر معصوم بچے ایک اور جنونی کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ ان بچوں میں پاکستان کی سبیکا شیخ بھی شامل ہے۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے ”اگلا صفحہ“ کا بٹن دبائیں

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad