مسلمانوں کو کھوئی ہوئی عظمت کی بحالی کے لیے کیا کرنا چاہیے


سائنس اسلام کے دورِ عروج میں پھیلی پھولی کیونکہ اسلام میں عقلیت پسندی کی ایک مضبوط روایت تھی جسے مسلمان مفکرین متعزلہ کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ روایت انسان کے آزادانہ فکری چناؤ کو مانتی ہے جو کہ تقدیر اور یہ کہ ہر بات پہلے سے لکھی جا چکی ہے کی روایت کے سخت مخالف بات ہے۔

متعزلہ کے رواداری والے راستے کی بنا پہ علم نے ترقی پائی۔ اس عقلیت پسندی پہ ضرب بارہویں صدی میں پڑی جب غزالی نے مسلم روایت پرستی پہ مبنی تحریک چلائی جو کہ اس بات پہ یقین رکھتی تھی کہ ہر بات پہلے سے طے شدہ ہے اور انسانی آزاد اختیار کی کوئی حثیت نہیں ہے۔

امام غزالی نے علم الحساب اور طب کو فرض کفایہ قرار دیا اور انہیں مذہبی تعلیم خے مقابلے میں ثانوی حثیت دی۔ یہ مضحکہ خیز ہے کہ آج کے مسلمان علما ماضی کے مسلم علما کی طرح روایت پسند ماڈل کی پیروی کرتے ہوئے عقلیت پسند مسلمان علما جیسا کہ الرازی، المعیار یا عمر بن خیام کی بجائے امام غزالی کی اتباع کو ترجیح دیتے ہیں۔

امام غزالی جن تصورات پر حملہ کر رہے تھے وہ ابوسینا اور الفارابی کے تھے ان میں سے ارسطو کے تھے اور کچھ افلاطون اور نو افلاطونی تھی۔ ابن سینا اسلام کے سنہرے دور کے ابتدائی دور کے تھے ان میں الفارابی اور ابن رشد بھی شامل ہیں۔ انہیں الشیخ الرئیس ( داناوں کے سردار ) کا خطاب بھی دیا گیا تھا۔ ان کے فلسفیانہ کام پہ پر امام غزالی کی تنقید کا بنیادی نشانہ تھے۔

مغرب میں انہیں طب کی مشہور کتاب القانون کی بنیاد پہ ”طبعیات کا شہزادہ“ کہا جاتا ہے ۔ لاطینی تراجم میں ان کے کام میں عیسائی فلاسفر ان کے کام سے بہت متاثر ہوئے ان میں سب سے واضح تھامس ایکوینس ہیں۔ مسلم دنیا میں یونانی فلسفے کی ترویج عربی فلاسفر الکندی ( 800۔ 865) نے کی۔ انہوں نے یونانی فلسفے اور سائنس پہ بہت سی کتب لکھیں۔ انہوں نے دوسرے لوگوں کے لیے علم اور تحقیق کی بنیاد رکھی۔ ان کا بنیادی کام اس یونانی فلسفے پہ مبنی سچائیوں کی مسلم دنیا میں ترویج ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ علم الحساب کے ماہر کے طور پہ انہوں نےارسطو کی لاجک کی اہمیت کو جان لیا۔

الفارابی کے مطابق ایک آئیڈیل حکمران کو اس کی ذہانت، سائنس اور فلسفے کے علم کی بنیاد پہ چنا جانا چاہیے۔ الفارابی کے مطابق مسلمانوں کی ریاست کے حکمران کو ایک فلسفی حکمران ہونا چاہیے جس کا تصور افلاطون کی رپبلک میں دیا گیا ہے۔

فارابی کی سیاسی اور سائنسی تصوارت کے علاوہ ایک اہم کام لاجک کے مطالعہ کو تخیل اور توبت یعنی ثبوت دو شاخوں میں تقسیم کر کے اسے آسان بنانا ہے۔ انہوں نے بہت سی سماجی کتب لکھی جس میں اس کی مشہور کتاب آراء اہل المدینہ الفدیلہ ( مثالی شہر) شامل ہے۔ ان کی نفسیات اور مابعد الطبعیات کی کتب اپنی تحقیق پر مبنی ہیں۔ ان کا فلسفے، سائنس، اور سیاست دلچسپی زیادہ تر اساتذہ اور سفر کرنے کی وجہ سے ہے۔

الفارابی کے والد ایرانی تھے جو ترکی دربار کے سپاہ سالار تھےالرازی ساری اسلامی دنیا کے سب سے بڑے فری تھنکر تھے اور تمام وقتوں کے سب سے بڑے ماہر طبعیات کہے جا سکتے ہیں۔ الرازی رائے جو تہراب کے قریب واقع ہے کے رہنے والے تھے، جہاں انہوں نے علم الحساب، فلسفے، علم الفلکیات اور ادب اور شاید کمیا کی بھی تعلیم حاصل کی۔ بعد میں وہ بغداد گئے جہاں طب کی تعلیم حاصل کی۔

اسلامی دنیا سے نوبل ا انعام حاصل کرنے والے ابوالعلاء المعری، ابن سینا، الفارابی، خیام یا الرازی کا ذکر اپنے نوبل حاصل کرنے کے خطابات میں کرتے ہیں ان عقلیت پسندوں کو مدرسوں میں بھلایا جاچکا ہے۔ فلسفیانہ بحث کی تاریخ کو جسے الغزالی اور ابن رشد نے شروع کیا وہ مسلم مشرق میں متورخین کے ہاتھوں بالعموم اور خلافت عثمانیہ کے زوال کے بعد اندلسیہ میں مسلم حکومت کے خاتمے کے بعد بالخصوص جاری رہا۔

دراصل مشہور حکمران، مہمت دوم (1451۔ 1481) نے ریاست کے دو علما کو حکم دیا کہ وہ امام غزالی اور ابن رشد کے درمیان ہونے والی بحث کے خلاصے کو دو کتب کی شکل میں اکٹھا کریں۔ یہ دونوں کتب شائع کی گئیں ان میں سے ایک کافی متنازعہ ایڈیشن ہے۔ تاریخ کے اس حصے کو لکھے جانے کی ضرورت ہے لیکن ایسا کرنے کو کوئی تیار نہیں۔ اسلام میں روایت پسندی ابن سینا، الکندی اور ابن رشد کے مقالات کو سلیبس کا حصہ بنانے کی اجازت نہیں دیتی۔

ایک طالب علم اسلام کے اصل ہیروز کے متعلق شاذ ہی جانتا ہے۔ ہم ابن سینا اور ابن رشد کو بھی مخصوص حوالوں میں جانتے ہیں۔ لیکن ان کی سوچ اسلام کےماحول کا حصہ نہیں ہے۔ اگر ابن سینا اور ابن رشد کی سوچ اسلام کے مکالمے کا حصہ ہوتی تو اسلام کے سنہرے دور کا سورج کبھی نہ ڈوبتا۔ ہم خیام کو محض ایک شاعر کے طور پر نہ جانتے اور اس کے پیغام کو نہ بھلاتے۔ ہم اس کے نظریات سے اختلاف رکھ سکتے ہیں۔ لیکن اس کا تکثیریت کا نظریہ ہمارے لیے سوچ کا در کھول سکتا ہے۔

اسلام کے سنہرے دور کے ان مفکرین کی سوچ کو دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے اسے ہمارے تعلیمی نظام کا لازمی حصہ ہونا چاہیےتب ہی مسلمان اپنی کھوئی ہوئی عظمت دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں۔ اور یہ بات واضح ہے کہ ترقی اور عظمت کا براہ راست تعلق علم اور تحقیق اور آزادنہ سوچ سے ہے ہمیں اسی کی ترویج کی ضرورت ہے۔ تاکہ ہم دنیا کے شانہ بشانہ چل سکیں۔
ترجمہ ثنا بتول۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).