گھڑمس سے کیسے نکلا جائے؟


جب 2000 میں میں امریکہ میں تھا تو میرے ایک دوست نے جو اب اس دنیا میں نہیں رہے، مجھے خط لکھ تھا کہ مرزا ”بحر بحرانات“ پاکستان لوٹنے کی مت سوچنا۔ میں نے اس کی بات کچھ حد تک مان لی تھی اور پاکستان کی بجائے روس لوٹ آیا تھا جو بحر بحرانات تو ہرگز نہیں البتہ گذشتہ تین برسوں سے اسے امریکہ اور یورپ نے مل کر ” بحر بحران ” ضرور بنا دیا ہے، تب ترقی کرتا ہوا نیم خوشحال ملک تھا۔ چند روز پیشتر میں نے لکھا تھا کہ ماسکو کی ایک ”انڈین شاپ“ پر بیسن مہنگا تھا جو میں نے نہیں خریدا تو یاروں نے ٹھٹھہ اڑا دیا کہ ”روس میں رمضان آ گیا مگر پکوڑے کھانے کو نہیں ملے“ اگرچہ گزری کل مجھے بیسن بھی دستیاب ہو گیا ہے اور وہ بھی سستے داموں پر شہر سے باہر ہائپرسٹور تک جانے اور آنے کا کرایہ ضرور بیسن کی قیمت میں شامل ہو گیا کیونکہ اس طرف سرکاری ٹرانسپورٹ نہیں جاتی جس میں مجھ ایسے پنشن یافتہ لوگوں سے چارج نہیں کیا جاتا مگر میں رمضان اور پکوڑوں کی بات ہرگز نہیں کروں گا، ان دونوں کا زیادہ تعلق میرے دوست کے بیان کردہ ”بحر بحرانات“ سے زیادہ ہے بہ نسبت روس کے۔

یہاں تو ایک ہنستا مسکراتا پوتن ہے جو اپنی مرضی کرتا ہے مگر عوام کی اکثریت یہی سمجھتی ہے کہ جو کچھ بھی کر رہا ہے ان کے بھلے کے لیے ہی کر رہا ہے کیونکہ ”اب دکھ، پھر سکھ“ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس وطن عزیز پاکستان میں پہلے ہی دلدر کیا کم تھے کہ پانچ سال میں ایک کروڑ ملازمتیں پیدا کیے جانے کے دعوے اور اس پر لے دے کے ساتھ ساتھ نواز شریف کا بیانیہ اور اس پر متضاد تکرار، نگران وزیر اعظم سے متعلق قیاس آرائیاں ( جو شاید آج طے ہو جائے )، نیب کے بعد محکمہ انکم ٹیکس کی بھی دھمکی آمیز پھرتیاں، شکر ہے چیف جسٹس صاحب ہمارے ہاں مہمان ہیں، اس لئے ان کی آنیاں جانیاں فی الحال بحرانات میں شامل نہیں۔ سب سے بڑھ کر گرمی اور کراچی میں ہونے والی ساٹھ سے زائد اموات پر بحث کہ ہیٹ سٹروک کے باعث ہیں یا اپنے طور پر اموات ہیں، طویل دورانیے کے روزے اور ان پر مسلسل طویل دورانیوں کی لوڈ شیڈنگ، تپش، لو، لگتا ہے جیس طرح اللہ تعالٰی نے فرعون کے مصر پر کئی آفات توڑی تھیں ایسے ہی اب انسان اور قدرت مل کر بحر بحرانات پاکستان کو اذیتوں، پریشانیوں، بدگمانیوں، سازشوں اور طرح طرح کی تکلیفوں کا ”گرم بستر“ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ایک گھڑمس ہے مسائل و مکافات کا جس سے لگتا ہے نکلنا مشکل سے مشکل تر ہوئے چلا جا رہا ہے۔

ویسے ملک پاکستان ہے زبردست۔ ہمارے محلے میں ایک کنبہ تھا، جس میں بھائی بھائی کو ذات کا سابقہ لگا کر پکارتا تھا جیسے ایک دوسرے کو یقین دلا رہے ہوتے کہ آپ اسی ارفع ذات سے ہیں، بدگمان نہ ہونا۔ لاہور میں ہمارے ایک وکیل دوست ہیں، معروف بھی ہیں۔ وہ دوسروں کے سامنے اپنی اہلیہ کو ” میڈم“ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں سنجیدگی کے ساتھ اور بہت سنجیدگی کے ساتھ یہ کہہ کر اپنے بیٹوں سے ملواتے ہیں ”راجہ۔ ۔ ۔“ سے ملیں، اگرچہ ملنے والے کو یقین ہوتا ہے کہ راجہ صاحب کی باقاعدہ جائز اولاد ظاہر ہے راجہ ہی ہوگی۔ تو ایسے ہی پاکستان میں ایک پارٹی ہے، کہتے ہیں کہ وہ سیاسی پارٹی ہے جس کے سربراہ کو انتخابات ہونے کے اعلان سے پہلے ہی ”وزیر اعظم“ کہنا شروع کر دیا گیا ہے، مستزاد یہ کہ رہنما نے بھی خود کو حقیقی وزیراعظم ”تسلیم“ کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو وزارتیں بانٹنا شروع کر دی ہیں کہ ”اوئے تم، تم سنو تم وزیر خزانہ ہو“ اور ” ہاں تم بھی، چلو کیا یاد رکھو گے، تم وزیر ماحولیات ہو“۔ اللہ اللہ! دیکھا گھڑمس سے نکلنے کا رستہ ہوتا ہے جو کچھ خاص انسانوں کی جانب سے یقین دلانے پر بہت آسان لگتا ہے چاہے وہ خاص انسان گھڑمس سے آسانی سے نکلنے کا سوچنے والوں کو طفل تسلیاں ہی کیوں نہ دے رہے ہوں۔

ویسے تو گھڑمس سے نکلنے کے بہت سے رستے ہیں جیسے کسی بھی بات پر کان مت دھرو۔ جیسے حق اللہ ہو حق اللہ ہو تسبیح اور گھماؤ، جو ہوتا ہے ہونے دو اور چپکے دیکھے جاؤ۔ جیسے بجلی نہیں ہے تو پیڑ تلے جا بیٹھو۔ پیڑ نہیں ہیں تو کوئی بات نہیں، پانچ برس انتظار کر لو ایک ارب پیڑ بڑے ہو کر چھتنار ہو جائیں گے تب ان کے تلے جا بیٹھنا۔ پیڑ توڑ توڑ کے بیچے جانا، ملازمت لگی رہے گی، گھر چلتا رہے گا۔ تعمیراتی لکڑی سے پیسے بنیں گے اور بالن مفت کا مل جایا کرے گا۔ آپ کا خیال ہے میں تمسخر اڑا رہا ہوں تو آپ نے درست ہی جانا کیونکہ آلام سے نکلنے کی خاطر یا تو تگ و دو کرنی پڑتی ہے، تگ و دو کا تمسخر کوئی نہیں اڑا سکتا اور اگر اڑانے کی غلطی کر بیٹھے تو خود مضحکہ خیز لگنے لگے گا یا پھر خواب دکھانے والوں کے دکھائے ہوئے خواب دیکھنے ہوتے ہیں جس کا جو چاہے تمسخر اڑا دے بشمول میرے۔

مجھے تو اسد عمر ویسے ہی اچھے لگتے ہیں۔ وجیہہ، شکیل، بردبار، خوش رو، خوش رنگ ان کے مقابلے میں نواز شریف یا شہباز شریف توبہ کرو بھائی ایک سرخ و سفید، جب نیب گرمی میں درخت تلے بٹھا دے تو بالکل ہی سرخ ہو جاتے ہیں، لال بھبھوکا۔ اوپر سے 69 برس کی عمر میں جاگر پہن کر دارالمحتسب پہنچے ہوتے ہیں۔ چھوٹے میاں، ویسے تو وہ بالکل بھی چھوٹے نہیں لگتے، پتہ نہیں عورتوں کو ان میں کیا دکھائی دیتا ہے، غالبا“ انہیں ہی عورتوں میں کچھ دکھائی دیتا ہوگا، اوہ سوری میں کچھ پرسنل سا ہو گیا۔ بھئی ہمیں تو ان کی انگلیاں ہی چلتی دکھائی دیتی ہیں یا آزمائشی اورنج ٹرین کے دروازے میں کھڑے بغیر روغن و پلستر کے تیزی سے بھاگتے گھروندوں میں ان کی فاتحانہ شکل دکھائی دیتی ہے اور بس جبکہ اسد عمر باوقار انداز میں بات کرتے ہیں۔ انہوں نے غلط تھوڑا نہ کہا ہوگا۔ کچھ کہنے کے لیے ماہر معیشت ہونا ضروری تو نہیں ارادہ ہونا چاہیے، مکمل تو اللہ تعالٰی کروائیں گے۔ اللہ انسانوں کی نیت دیکھ کے ہی عمل کا ثواب دے دیتا ہے۔ ہم خاکی بھلا کسی کی نیت کو کیوں کر نیک جان سکتے ہیں، ہم غیبت کرنے والے عاصی لوگ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).