کیا سوال کرنا انتہا پسندی ہے؟


حالیہ دنوں میں پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر عمار علی جان کو اس کے عہدے سے بر طرف کیا گیا ، پنجاب یونیورسٹی سے  ہونے والے بیاں کے مطابق ڈاکٹر عمار علی جان ” ریاست مخالف، لسانیت اور انتہا پسند خیا لات “کو ہوا دے رہے تھے۔  یاد رہے کہ ڈاکٹر عمار علی جان  پنجاب یونیورسٹی میں شبعہ عمرانیات کے پروفیسر ہے اور کیمبریج یونیورسٹی سے فارغ شدہ ہے۔
6 اپریل 2018 کو ادارہ سوچ کی طرف سے لیئےگئے انٹرویو کے مطابق  پنجاب یونیورسٹی سے کوئی تفصیلی بیاں سامنے نہیں آیا۔ البتہ اس سوال کا جواب کہ وہ کس طرح انتہا پسند خیالات کو ہوا دے رہے تھے ؟
تو ڈاکٹر عمار علی جان نے جو انٹرویو دیا وہ قابل ذکر ہے۔
“میرا کام نظریات سے متعلق ہے۔ اور نظریہ کبھی آپ کو جواب نہیں دے سکتا اور نہ ہی حل بتا سکتا ہے۔ پاکستان میں ہم ہر چیز کے ساتھ اس کا حل تلاش کررہے ہوتے ہے۔  نظریہ آپ کو یہ بتاتا ہے کہ کیا آپ صحیح سوال کررہے ہیں؟ اور یہاں پر ہمارا امتحاں یہ ہوتاہے کہ ہم طالبعلموں ، معاشرہ اور خود اپنی مدد کریں۔ ہمیں خود بھی اس معاملہ میں تحقیق کرنی چاہیئے کہ کیا ہم صحیح سوال کررہے ہیں ؟ ہمیں اپنی سوالات پر محنت کرنے کی ضرورت ہے ، اور یہاں ہمارا مسلہ ہی یہ ہے کہ وہ ہمیں سوال کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان فلسفہ اور نظریات کے میداں میں بنجر زمیں کی مانند ہے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ طلبا کو سوالات کرنا سکھانا  ایک انتہا پسند اور ریاست مخالف رویہ ہے؟ سوال کرنا ایک غیر معمولی دیوار ہے۔ پورے نظام کو اس طرح تخلیق کیا گیا ہے کی لوگوں کو اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ سوال نہ کریں یہ بالکل ایسا ہے جیسے آپ مجرموں اور قیدیوں کو پڑھا رہے ہوں۔ اور ان سے بولنے کا کہہ رہے ہوں۔  میری رائے میں سرکاری جامعات ایک قید خانہ کی طرح ہیں۔ ان کے پاس اچھے پروفیسرز بھی ہیں، طلبا بھی شاندار ہے، اور انتظامی امور سھنبالنے والے بھی زبردست لوگ بھی موجود ہے۔  جو اس غالب رجحاں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر یہ غالب رجحاں امن کے آڑے آیا ہوا ہے۔ لیکن اگر انتشار پیدا کرنے والے سوالات عمار جان اور ان کے طالب علمون کو انتہا پسند بناتے ہیں۔تو ان سرگرمیوں کا کیا جو جمعیت جیسی طلبہ تنظیم کرتی ہے۔  اگر سوال کرنا انتہا پسندی ہے تو تشدد کے بارے میں کیا خیال ہے”؟

تاہم لوگ یہ کہتے ہے کہ عمارعلی جان کا کیس اس سے تعلق رکھتا ہے وہ ترقی پسند خیالات تلاش کررہے ہے۔ ان سب چیزوں کی جو ترقی کی طرف لے جا سکتی ہیں۔ تاہم معاشرہ ایسے عناصر کو ہمارے سیاق میں پنپنے نہیں دیتا۔ معاشرہ وقت اور حالات کے مطابق تبدیل ہوتا رہتاہے۔ اور ایک با شعور انسان اس تبدیلی کو محسوس کرتا ہے۔ اگرچہ معاشرے میں روایات اور ثقافتی خوبصورتی اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن چند عوامل ایسے ہوتے ہے جو سماج کی ترقی کی راہ میں حائل ہوتے ہے۔ اور تغیر و تبدل کا راستہ روکھ لیتی ہے۔ جس سے معاشرہ آگے بڑھنے اور حالات کا مقابلہ کرنے کی بجائے جمود کا شکار ہوتا ہے۔

معاشرہ پرانی روایات و اقدار سے الگ نہیں ہونا چاہتا کیونکہ روایات و اقدار کی تبدیلی اجتماعی سوچ کو تکلیف میں مبتلا کردیتی ہے۔  جیسا کہ ہم تاریخ میں دیکھتے آئے ہے کہ نئے خیالات و افکار پیش کرنے والوں کو آگ میں جلایا گیا،  سولی پر لٹکایا گیا ، ان کو لاپتہ کیا گیا، پھانسی دی گئی، زہر دیا گیا،  ان کے خیالات پر قدغن لگائی گئی اور ان پر روزی و معاش کے دروازے بند کردیئے گئے،

معاشرے ایک درجے سے دوسرے درجے کی جانب بڑھتے رہتے ہے۔ اور برابر تبدیل ہوتےرہتے ہے۔ جو معاشرے تحت شعور مراحل میں ہوتے ہیں۔ وہاں پر ترقی پسند اور عقل پرست سوچ کو غیر متوقع حالات کا سامنا  کرنا فطری ہے۔ معاشرے میں  جو ترقی کی حمایت کرتے ہیں۔ سماج ان کو روایات کا باغی قرار دیتا ہے۔ لوگ ان کو مجرم گردانتے ہیں، اور یوں سماج کا یہ طبقہ کبھی کامیاب اور کبھی ناکام اپنے حصے کی شمع جلا کر تاریخ کا حصہ بن جاتے ہے یا پھر ان کی قربانی اور،محنت وقت کی نذر ہو جاتی ہے۔  لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ معاشرے کی زرخیز زمیں پر شعور کا بیج بو دیتے ہے اور یوں وقت اور حالات کے ساتھ یہ  بیج اپنی مکمل حالت میں آجاتا ہے اور پھل دیتا ہے۔

البتہ یہاں پر یہ بات قابل غور ہے کہ  آخر کب تک ہم ذہنی پستی اور جہالت کا شکار رہیں گے؟اس کے پیچھے کیا وجوہات ہو سکتے ہے؟ اوروہ کون  سے عناصر ہیں جو شعور کی راہ میں حائل ہیں؟ کیونکہ سوال کرنے سے ہی سوچ کی آبیاری ممکن ہے اور انسانی زہن نئے تصورات اور خیالات کو سمجھ سکتا ہے جس کے ساتھ وہ وقت اور حالات کے مطابق اپنی حالت کو بہتر کرسکتا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے ہمارے تعلیمی ادارے اور معاشرہ  فکر کرنے، تدبر کرنے اور سوال کرنے کو حرام سمجھتا ہے۔ حالانکہ قرآں کریم میں اللہ تعالی نے فکر کرنے، تدبرکرنے اور کائنات پر غور کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔  لیکن ہم سوال کرنے، سوچنے اور فکر کے عمل کو انتہا پسندی کا نام دے کر   اپنی بد حالی پر پھولے نہیں سماتے۔   اس سے آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہے؟ یہ سوال میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).