مرزا غالب، اماں کریماں اور وزیر اعظم عمران خان


ادھر رمضان المبارک شروع ہوتا ہے، ادھر میرے دماغ میں الٹے سیدھے خیال آنے لگتے ہیں۔ بیوی نے کہا کہ ماہر نفسیات سے ملو لیکن ساتھ ہی اس کے مرد ہونے کی شرط بھی عائد کر دی۔ کسی مرد کو دل کا حال سنانا تو ایسے ہی ہے کہ زندگی کا خالی پن دور کرنے بندہ صحرا میں چلا جائے۔ ویسے تو کسی عورت کو سنانے کا مطلب بھی ہر چند اچھا نہیں۔ ” صنم دکھلائیں گے راہ وفا ایسے نہیں ہوتا” ۔ رہی بات دوستوں کی تو “زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ آ ئیں گے کیا”. او بھائی کھڈے میں گرو، بھاڑ جھونکو، جان چھوڑو، کسی دیوار کی طرف منہ کرکے بک دو، جنوں میں جو کجھ ستا رہا ہے ، اندر سے آ واز آئی۔ معاً خیال آ یا دیوار کی طرف منہ کیا تو دیکھو فلاں کا بچہ کیا کر رہا ہے ٹائپ باتیں لکھی ہوں گی یا سرعت اضمحلال کا شکار ہونا پڑے گا کسی کو آ تا دیکھ کر۔ دیوار کا ذکر ہو اور آ پ غالب کو بھول جائیں ایسے تو بے حیا نہیں۔ خوب برتا ہے غالب نے دیوار کو۔ ذرا مزا لیجیے!

 وفور اشک نے کاشانے کا کیا یہ رنگ

کہ ہو گئے مرے دیوار و در، در و دیوار

ایک جگہ فرماتے ہیں،

سر پھوڑنا وہ غالب شوریدہ حال کا

یاد آ گیا مجھے تیری دیوار دیکھ کر

اور پھر یہ کہنا بھی غالب ہی کا کمال ہے کہ

اگ رہا ہے در و دیوار پہ سبزہ غالب

ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے

دیوار کو بہت مختلف رنگوں میں برتا ہے غالب نے۔ میں ایسا ذوق تو نہیں رکھتا کہ میر سے غالب جیسا لطف اٹھا سکوں لیکن میر نے بھی خوب کہا ہے،

چشم ہو تو آ ئینہ خانہ ہے دہر

منہ نظر آ تے ہیں دیواروں کے بیچ

آج کل دیوار مہربانی کا بہت ٹرینڈ ہے۔ گندی سی دیوار پر چند پرانے کپڑے لٹک رہے ہوتے ہیں۔ کوئی بھنگی یا چرسی اٹھا لیتا ہوگا ورنہ سفید پوش کے مسائل اتنے سنجیدہ نوعیت کے ہیں کہ سن کر روح کانپ جائے اور میں ابھی سے بتا دوں نیا پاکستان بھی اس کے درد کا درماں نہیں ہو سکتا۔ سو دن کا جو منصوبہ دیا گیا ہے وہ اسی مخصوص ذہن کا اعادہ کرتا ہے جو سکول کی چھٹیوں میں سارا کورس ختم کر کے پورا سال گلچھرے اڑانے سے متعلق ہے۔ پہلے بڑھ ہانکتے رہیں گے، جب حساب مانگا جائے گا تو فرمائیں گے، فرشتے کہاں سے لاؤں، ناتجربہ کار ٹیم ہے، ہمیں حکومت تو ملی، اختیار نہیں ملا، وغیرہ وغیرہ۔ میں کوئی نجومی نہیں اور نہ ہی بننا چاہتا ہوں کیونکہ میں انسانی معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں کو جذباتی نہیں، سائنسی تناظر میں دیکھتا ہوں۔ گردشی قرضہ، ٹیکس نیٹ، فاٹا کا انضمام، اداروں کی خود مختاری۔۔۔ مینوں لگ گئی بےاختیاری۔۔۔۔

کچھ لوگ لیکن بہت پر امید ہیں، ان کا خیال ہے کہ حکومت ملنے کے بعد خان صاحب نتھیا گلی میں لڈو کھیلتے اور “ننگے پنڈے’ جوگنگ کرتے ملیں گے کیونکہ سارا کام تو دھاگوں سے چل رہا ہو گا۔ اگر کوئی عالمی معاشی ادارہ تنگ کرتا ہے، مہنگائی کا رونا رویا جاتا ہے, بے روزگار بھوک ہڑتال پر جاتے ہیں یا اپوزیشن کرپشن کا راگ الاپنا شروع کر دیتی ہے تو چند صدقے کی سریا ں اور کرپشن دی پین دی سری۔

میں کوئی باقاعدہ لکھنے والا نہیں ہوں اس لیے شعور کی رو میں بہہ کر بھٹک جاتا ہوں اس کے لیے معاف فرمائیں۔ رمضان کے آ تے ہی مجھے اپنے ریلوے والے گھر (خانیوال) میں کام کرنے والی محنت کش اماں یاد آ تی ہیں جو روزے نہیں رکھتی تھی اور اگر ازراہ مذاق پوچھ لیا جاتا کہ روزہ کیوں نہیں رکھا تو تڑاخ سے جواب دیتیں ، “کیوں؟ او میکوں چوکھا دتا ھائی” یعنی “مجھ سے یہ سوال کیوں پوچھتے ہو مجھے کونسا اللّٰہ نے بہت زیادہ خوشحالی دی ہے؟” . گویا روزہ رکھنا نعوذ باللہ امیروں کے چونچلے ہیں۔ اماں کریماں یوں تو ملازمہ تھیں لیکن رعب ان کا ھم سب پر تھا۔ ھم اسے چڑانے کے لئے کہتے کبھی نماز پڑھ لیا کرو ، دعا مانگ لیا کرو تو تنک کر کہتیں ۔” مڈھا پوتر ! منگ کےگھنیا تے کے گھنیا”. یعنی اللہ سے بھی مانگنا پڑے گا۔ اسے پتہ تو ہو گا میں کس حال میں ہوں۔” اماں تمہیں مرنے سے ڈر نہیں لگتا” کوئی پوچھتا تو جھٹ سے کہتیں ۔ جس اماں کریماں کو تم جانتے ہو وہ یہاں ( اپنی طرف اشارہ کر کے کہتی) کرایہ دار ہے۔ آ ج اس مکان میں ہے، کل نہیں ہو گی۔ کرایہ دار چلے جاتے ہیں ، گھر مسمار ہو جاتے ہیں۔

پھر غالب یاد آ تا ہے۔ ” کس سے کہوں کہ داغ جگر کا نشان ہے”۔

کبھی ھم اماں کریماں سے پوچھتے کہ گناہ ثواب اور سزا جزا کا کیا ہوگا تو کہتیں ، “میں خواب ڈٹھے ہن ملکہ بن ویسوں ہک ڈیں پر برتن مانجھ مانجھ بڈھی تھی گئیں ہا ں”.

مرزا نوشہ پھر یاد آ گیا۔ فرماتے ہیں ،

کیوں آ رزو حسرت بنی اس کا بھی تو حساب ہو

محشر کے اندر اے خدا اک اور محشر چاہیے

اگر کبھی پوچھا کہ اماں کریماں کوئی خلش جو رہ گئی ہو تو بولیں، ” جب کرمو (کریم بخش ،اماں کا بیٹا جو ریلوے ملازم تھا اور ھمارے پاس ہوتا تھا۔ اب بہت خوشحال ہو گیا ہے) چھوٹا تھا تو میں اسے لالچ دیتی تھی کہ میلہ دکھاؤں گی ۔ بس پھر کرمو بڑا ہو گیا ۔ اس نے کبھی میلہ نہیں دیکھا۔ میی نے کہا ، اماں زندگی بھی تو اللّٰہ کا سجایا میلہ ہی ہے تو کہنے لگی، ” وے لم ڈھینگ ! میلے تیں ہر بندہ دھمی امدا ھی شام تک راھندا ھی۔ خوش تھیندا ھائی ” یعنی میلے میں ہر شخص خوشی سے آ تا ہے اور صبح سے شام تک خوش رہتا ہے ۔ اماں کو زندگی کے میلے میں ہر کوئی خوش نظر نہیں آ یا۔ بس یہی کمی تھی اس میلے میں ۔ مرزا غالب کو یہاں کا میلہ زیادہ بھرا ہوا لگتا تھا۔ کہتے ہیں

کم نہیں جلوہ گری میں تیرے کوچے سے بہشت

نقشہ کچھ ایسا ہی ہے ولے اس قدر آ باد نہیں

اماں بھی مرزا غالب کی طرح کبھی شکوہ نہیں کرتی تھیں اللّٰہ سے، نہ کبھی قسمت کو کوسنے دیتی تھیں ، نہ ہی بات بات پر شکر بجا لاتیں تھیں۔

“اماں مسلمان ھیں وی کہ ناہی” ھم چھیڑتے ۔

“نا پوتر ! میکوں اوس کے دتا کیں نیں تے لتا وی کے نیں”. یعنی اگر اللہ نے مجھے کچھ دیا نہیں تو کیا بھی کچھ نہیں۔ مجھے لگتا ہے کہیں ایک ہی دماغ تھا مرزا غالب اور اماں کریماں کا ۔

دونوں جہاں دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا

یاں آ پڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).