بیرون ملک کاروبار کرنا ناجائز ہے


سوچا تھا رمضان کا مہینہ ہے۔ عبادات اور اذکار میں دھیان بٹائیں۔ لکھنے پڑھنے جیسے لغو شوق سے دور ہی رہیں۔ لیکن چور چوری سے جا سکتا ہے۔ ہیرا پھیری سے نہیں۔ ہم سے بھی رہا نہیں گیا۔ آ گئے ہیں واپس آپ کی مجلس میں اپنی حاضری لگانے۔ اچھا لگے یا برا ہماری بلا سے۔

یہ بھی سوچا تھا کہ ایسا کوئی بلاگ نہیں لکھنا جس میں گالیاں پڑنے کا احتمال ہو۔ لفافے کے نعرے بلند ہوتے ہیں اور ملتا کچھ نہیں۔ ہمارا احساس محرومی بڑھ جاتا ہے۔ اب ہم جنوبی پنجاب تو ہیں نہیں جو خان صاحب جیسے کوئی مسیحا ہمارے دکھ کا مداوا کر جائیں کسی سہانے سبز باغ کی صورت میں۔ ہماری ایک سہیلی کا مشورہ ہے کہ لڑکیوں کو ٹھنڈی میٹھی تحاریر پر ہی اکتفا کرنا چاہیے۔ لیکن خدا کو ہماری توبہ منظور ہی نہ ہو تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔ جب نیکی کا ارادہ کریں اسی وقت ہمارے اور آپ کے کپتان صاحب ایسا ورلڈ کپ جیت لاتے ہیں کہ آپ کی بہن کا دل وہیں مچل سا جاتا ہے۔

خان صاحب کی عادت سرپرائز دینے کی ہے۔ کبھی خیبر پختونخواہ میں ایک ارب درخت لگا دیتے ہیں۔ کبھی ٹوکیو کو ہزار یونیورسٹیوں کی نوید سنا ڈالتے ہیں۔ اس سے فارغ یوں تو اپنے متوقع اقتدار میں لاکھ نہیں کروڑ نوکریوں کا اعلان کر بیٹھتے ہیں۔ شغل لگا ہی رہتا ہے کوئی نہ کوئی۔

خیر ابھی جو نکتہ اٹھایا ہے وہ آج کا نہیں بلکہ خان صاحب کی سیاست کی بساط اسی پر مبنی ہے۔ شروع دن سے کہہ رہے ہیں۔ لیکن یہ جاہل قوم (ماسوائے ان کے جو انہیں ووٹ دیں) سمجھ ہی نہیں پا رہی۔ ابھی بھی یہی کہہ رہے تھے کہ اسحاق ڈار صاحب کے بچے تو بیرون ملک میں بزنس کر رہے ہیں۔ میاں صاحب کے صاحبزادوں سے بھی یہی گلہ رہا ہے۔ ان کی جرات کیسے بن پائی ملک سے باہر بیٹھ کر کوئی بھی کاروبار کرنے کی؟ کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے۔ یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے؟

پتہ نہیں کیسے بےحس اور نا اہل لوگ ہیں جو بچوں کو ملک سے باہر بھیجتے ہیں۔ خان صاحب ایسے ہر گز نہیں۔ نہ کبھی خود ملک سے باہر تعلیم حاصل کی اور نہ ہی بچوں کو پشاور سے باہر کی کوئی گلی بھی دیکھنے دی۔ سلیمان اور قاسم تو مدرسہ حقانیہ کے طالب علم ہیں۔ معرفت یوں تو گھر کی بات یے لیکن بچوں کو وہاں کسی قسم کا فیورٹ ازم نہیں ملتا۔ چچا کا مدرسہ اپنی جگہ لیکن میرٹ پر کوئی سمجھوتہ نہیں۔ پشتو کے علاوہ کسی بھی زبان میں کلام پر سخت پابندی ہے۔ گھر میں امپورٹڈ شہد کا بھی گزر نہیں کہ مبادا کفار کی کوئی سازش خان صاحب اور ان کے خاندان کی حب الوطنی کو کوئی داغ نہ لگا دے۔

یہ قوم تو ہے ہی جاہل۔ یہ بھولی مجیں انار کلی کی شانیں کیا جانیں۔ خان صاحب کے غم و غصے سے ہمارا بھرپور اتفاق ہے۔ واقعی بچوں کو بیرون ملک تعلیم یا کاروبار کے لئے بھیجنا بڑی رکیک اور ملک دشمن حرکت ہے۔ بچے تو اپنے گھر ہی اچھے لگتے ہیں۔ عوام خوامخواہ کی جگتوں سے پرہیز کرے۔ بے شک بیرون ملک کی ہوا بھی ناجائز ہے۔
حق خان صاحب حق۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).