کراچی میں پشتونوں کا ووٹ کس کے لیے؟


انتظامی لحاظ سے کراچی، پاکستان کا انتہائی منفرد یونٹ ہے، یہ ایک ایسا ڈویژن ہے جس میں کراچی وسطی، کراچی شرقی، کراچی جنوبی، کراچی غربی، کورنگی اور ملیر کے چھے اضلاع شامل ہیں۔ صوبہ سندھ کی انتظامی تقسیم اور مقامی حکومتوں کے نظام کے مطابق ابھی تک کراچی میں شہری اور دیہی علاقے کی تقسیم موجود ہے۔ لگ بھگ گزشتہ چار دہائیوں میں کراچی کی آبادی میں تین گنا اضافہ ہوا ہے، جو اب ایک کروڑ پچاس لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ اس کے باوجود کچھ لوگوں کو یہ آبادی کم لگ رہی ہے۔

اگر ہم سال 1998ء کی آبادی سے موازانہ کریں تو کراچی کی آبادی میں تقریبا ساٹھ فی صد اضافہ ہوا ہے، جس شہر میں آبادی کا دباؤ رہا ہے، پورے ملک سے آبادی منتقل ہورہی ہے، اس کی آبادی میں گزشتہ سترہ برسوں میں صرف ساٹھ فی صد اضافہ دکھایا گیا ہے، جو منطقی اور عملی طور پر ممکن نہیں۔ تاہم دیگر جماعتوں کی طرح عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے بھی اس مرتب کردہ مردم شماری کے اعداد و شمار پر اعتراض کیا گیا ہے۔

ایک منطق یہ بھی پیش کی گئی ہے کہ کراچی میں برسوں سے رہنے والے بیس لاکھ سے زائد افراد، کراچی نہیں بلکہ فاٹا، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، بلوچستان، خیبر پختونخواہ اور پنجاب میں رجسٹرڈ ہیں۔ ان کے شناختی کارڈز پر مستقل پتا آبائی علاقوں کا تھا اس لیے انھیں وہیں گنا گیا۔

گزشتہ سال ادارہ شماریات کی جانب سے جاری اطلاعات کے مطابق ستر لاکھ سے زائد پشتون کراچی میں آباد ہیں؛ جب کہ نئی مردم شماری میں پشتونوں کی کراچی میں ابادی میں پانچ فی صد اضافہ ہوا ہے، جو معاشی گڑھ میں مہاجروں کے بعد سب سے بڑی تعداد ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کراچی میں بسنے والے قومیت اور فرقوں میں پشتونوں کی آبادی مہاجروں کے بعد واضح حیثیت رکھتی ہے۔ کراچی میں منتقل یا نقل مکانی کرنے ہونے والی پشتونوں کی اؓٓبادی خیبر پختونخوا، باجوڑ، سوات اور دیگر علاقوں سے آئی ہے، جہاں روزگار کے مواقع نہیں، یا گزشتہ کچھ برسوں سے وہاں جنگ کی صورت احوال رہی۔ تاہم کچھ لوگ یہ دلیل بھی پیش کرتے نظر آتے ہیں کہ کراچی میں لسانی فسادات اور ہنگاموں کی وجہ سے اب یہ تعداد کم ہو رہی ہے اور وہاں کے حالات بہتر ہونے کے باعث لوگ واپس اپنے اپنے علاقوں کو جا رہے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق 1998 کی مردم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی ایک کروڑ کے قریب تھی، جس میں 48 فی صد کی زبان اردو تھی؛ جب کہ دوسری بڑی قومیت پشتون تھی۔ لیکن فوجی آپریشن، زلزلے، سیلاب اور پس ماندہ علاقوں میں روزگار کے ذرائع کی عدم دستیابی کی وجہ سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے باعث کراچی کا لسانی توازن اب تبدیل ہوچکا ہے۔

کراچی میں بسنے والے پشتونوں کی آبادی اکثر ایسے علاقوں میں رہتی ہے، جہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ کراچی کے مضافات میں آباد پشتونوں کی آبادی یا اکثریت پانی، بنیادی تعلیم یا اسکول، صحت عامہ کے مسائل سے دوچار اور کچے بنے مکانوں کی آؓبادی میں سکونت پذیر ہے۔ یہ ایسے علاقے ہیں جہاں آپ کو اسکول بے شک نہ ملیں، مگر گلی گلی بہتات سے بنے مدارس ضرور نظر آئیں گے؛ جو بڑھتی مذہبی انتہا پسندی کا ایک سبب بھی ہے۔

کراچی کہ وہ علاقے جہاں آپ کو پشتونوں کی اکثریت یا یوں کہیں وہاں جا کر فاٹا یا کے پی کے کا گمان ہو، ان علاقوں میں سہراب گوٹھ، منگھو پیر، گڈاپ، لانڈھی، ملیر، مشرف کالونی، ہاکس بے کالونی، گلشن بونیر، کیماڑی، سائٹ، بلدیہ، بنارس کالونی، پاپوش اور اورنگی ٹاؤن پشتوںوں کی اؓٓبادیاں بن چکی ہیں۔ ان علاقوں میں 50 سے زائد یونین کمیٹیاں بھی قائم ہیں، جو ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن کے انتخاب میں حصہ لیتی ہیں۔ دیکھا جائے تو ماضی میں پشتونوں نے جمیعت علما اسلام، پاکستان مسلم لیگ نون، اے این پی، متحدہ مجلس عمل، جماعت اسلامی اور ماضی قریب میں پی ٹی آئی کو ووٹ دیے ہیں۔ یہ ووٹ اکثر مذہب اور قومیت کو ملحوظ خاطر رکھ کر دیے گئے، جب کہ پی پی کے حصے میں بھی ایک محدود تعداد میں پشتونوں نے ووٹ ڈالے۔

تاہم وقت کے ساتھ ساتھ نئے دھڑوں کے پیدا ہونے سے کراچی میں پشتونوں کا ووٹ بنک تقسیم ہوتا نظر آتا ہے، وہ ووٹ بینک جو کراچی میں اے این پی، جے یو آئی، جماعت اسلامی کو پڑتا تھا، اب پی ٹی آئی کے لیے بھی نرم گوشہ رکھتا نظر آرہا ہے۔ اس کے علاوہ حالیہ دنوں میں شروع ہونے والے پشتون تحفظ مومنٹ کے بعد یہ ووٹ بنک مزید تقسیم در تقسیم ہو رہا ہے۔ پی ٹی ایم کے تعلق رکھنے والے اکثر نوجوانوں کا کہنا ہے کہ نظریاتی اختلافات پر وہ اے این پی جیسی جماعت کو ووٹ دینا پسند نہیں کریں گے۔ اے این پی جماعت نہیں بلکہ لسانی بنیاد پر بنا گروہ ہے، جسے دیگر پشتونوں کے مفادات اور تحفظات سے کوئی مطلب نہیں۔

اتوار کے روز ہونے والے پی ٹی ایم کے جلسے میں کچھ نوجوانوں سے ملنے کا اتفاق ہوا تو ان کا کہنا تھا کہ انھیں اس بات سے دل چپسی نہیں کہ کون حکومت میں آتا ہے اور کس کی کیا اکثریت ہے، وہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کے مسائل حل ہو اور ان کی ڈیمانڈ پوری کی جائیں۔ کچھ نوجوانوں نے تو یہ تک کہا کہ اگر ممکن ہوگا تو وہ پشتون موومنٹ کے پلیٹ فارم سے اس سال الیکشن میں کھڑے ہوں گے اور پشتونوں کے ایک بڑے ووٹ بینک سے انتخاب جیت سکتے ہیں۔

نقیب اللہ محسود کے قتل کے بعد پی ٹی ایم نے فاٹا کے بعد سب سے زیادہ اپنا اثرو سوخ کراچی میں دکھایا ہے، جہاں وہ پی ٹی ایم کے پلیٹ فارم پر بڑی تعداد میں پشتونوں کو جمع کرنے میں کامیاب بھی ہوئے ہیں، جو کراچی کی دیگر بڑی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے لیے یقیناٍ ایک لمحہ فکریہ بھی ہے۔ جیسے ماضی میں ہم دیکھتے آئے ہیں کہ اکثر اوقات پشتونوں کی جانب سے کراچی میں آبادیوں کی بنیاد پر نیا حلقہ ترتیب دینے کا بھی مطالبہ کیاگیا تھا۔ تاہم یہ اب آنے والا الیکشن ہی بتائے گا کہ کراچی میں موجود اتنی بڑی تعداد میں پشتون اپنے ووٹ کس کی جھولی میں ڈالتے ہیں اور کس کو جتواتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).