وزیر اعظم عمران خان کے پہلے 100 دن اور نواز شریف کا مستقبل


پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان نے الیکشن 2018 کے لئے اپنے منشور کے گیارہ نکات پیش کرنے کے بعد اب اپنی حکومت کے پہلے 100 دن کے پروگرام کا اعلان کیا ہے۔ اسلام آباد میں اتوار کو یہ اعلان کرتے ہوئے مختلف شعبوں میں تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی واضح کرنے کے لئے شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور جہانگیر ترین بھی پارٹی سربراہ کے ساتھ موجود تھے۔ یہ اعلان نامہ اس لحاظ سے تو خوش آئیند ہے کہ پاکستان تحریک انصاف پورے اعتماد کے ساتھ انتخاب میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اور اسے امید ہے کہ سابقہ وزیر اعظم نواز شریف کی مشکلات، تصادم کی پالیسی اور مسلم لیگ (ن) کے اندر اختلاف رائے کی خبروں اور توڑ پھوڑ کے سبب پاکستان تحریک انصاف کو پنجاب کی حد تک ووٹروں کو متبادل فراہم کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ موجودہ حکمران جماعت کے متعدد الیکٹ ایبلز اب چونکہ تحریک انصاف کا حصہ بن چکے ہیں ، اس لئے عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو اس بات کا بھی یقین ہے کہ پنجاب کے سیاسی خانوادوں میں بڑھتی ہوئی بے چینی ان کی کامیابی اور نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کی عبرت ناک شکست کا سبب بنے گی۔ مبصر اس امکان کا اظہار کررہے ہیں کہ ملک میں عبوری حکومتوں کے قیام کے بعد مسلم (ن) کا ساتھ چھوڑ کر نئے جیتنے والے گروہ میں شامل ہونے والوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگا۔ ریاضی کے سادہ اصول کے مطابق مسلم لیگ (ن) سے نکلنے والے ہر قابل انتخاب امیدوار کی تحریک انصاف میں شمولیت سے تحریک انصاف کا پلڑا بھاری ہوتا چلا جائے گا اور انتخاب کے دن تک یہ پلڑا اتنا بھاری ہو چکا ہو گا کہ مسلم لیگ (ن) کو شاید سب حلقوں میں دوسرے درجے کے امید وار بھی نصیب نہ ہوسکیں۔ پیپلز پارٹی پنجاب میں کوئی سیاسی حکمت عملی بنانے اور انتخاب سے پہلے خود کو نمایاں کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس کے ناخدا ا ٓصف علی زرداری اس بار اسٹبلشمنٹ کی نگاہ کرم اور آزاد امیدواروں کی کامیابی کو اپنی امیدوں کا مرکز بنائے ہوئے ہیں۔ جبکہ تحریک انصاف کی مقبولیت اور سیاسی سرگرمیوں سے یہ اندازہ مشکل نہیں ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کی جگہ لینے کے لئے تیار ہے۔

ان قیاس آرائیوں سے قطع نظر کی تحریک انصاف کس حد تک مسلم لیگ (ن) کے ووٹ بنک میں ڈینٹ ڈالنے میں کامیاب ہوتی ہے اور نواز شریف کی طرف سے ریڈ لائن عبور کرنے کا رویہ ان کی پارٹی کو کتنا گہرا ڈبونے میں کا سبب بنتا ہے ۔ انتخاب ہونے اور اس کا نتیجہ سامنے آنے سے پہلے یہ سارے اندازے ہیں ۔ یہ اندازہ کرنے والوں کے پاس اپنا اپنا پیمانہ ہے اور وہ اپنی سیاسی صوابدید اور حلقہ جاتی سیاست کی اونچ نیچ کے مطابق تجزیے اور قیاس آرائیاں کرنے میں مصروف ہیں۔ ان اندازوں کے غلط یا درست ہونے کا فیصلہ جولائی ، اگست یا ستمبر یا اس کے بھی بعد ہونے والے انتخابات میں ہی ہو سکے گا۔ کیوں کہ ہوائی اڑانے والوں کے قرطاس امید پر ابھی تک روشن حروف سے یہ بھی درج ہے کہ یکم جون سے قائم ہونے والی عبوری حکومت ایسے اہل ، ایماندار اور حب الوطن لوگوں پر مشتمل ہوگی کہ اسے چند برس کا وقت دینا ضروری ہو جائے گا تاکہ وہ گزشتہ دس برس کے دوران دو جمہوری حکومتوں کے ادوار میں ہونے والے قومی نقصان کو پورا کرنے کے لئے ٹھوس اور مثبت اقدام کرسکیں ۔ ملک کے سیاسی مستقبل کے بارے میں اگر یہ قیاس آرائی درست ثابت ہوتی ہے تو عمران خان کو وزیر اعظم کہلانے اور اپنے سو روزہ ایجنڈے پر عمل درآمد کے لئے شاید دو، تین سال یا زیادہ مدت تک انتظار کرنا پڑے۔ اور اگر یہ انتظار مسلط کیا گیا تو شاید عمران خان اس کے خلاف کوئی ایسا دھرنا دینے کے بھی قابل نہ ہوں جو انہوں نے 2014 میں ایک منتخب حکومت کے خلاف دھاندلی کے نام پر دیاتھا۔ کیوں کہ اس بار وہ اسی قوت کے سہارے انتخاب لڑنے اور جیتنے کی امید لگائے بیٹھے ہیں جس کی مرضی و منشا کے بغیر نہ انتخاب منعقد ہو سکتے ہیں اور نہ ہی معطل یا مؤخر کئے جاسکتے ہیں۔ طاقت کے ایسے مرکز سے سامنے آنے والا کوئی اچانک اور غیر متوقع فیصلہ اگرچہ عمران خان کی امیدوں پر پانی تو پھیرے گا لیکن ان کے پاس اسے مسترد کرنے کے لئے کوئی دلیل نہیں ہوگی۔ بہر حال یہ تو محض ایک انتہائی اور تکلیف دہ سیاسی صورت حال ہوگی جس کونظر انداز کرنا ہی بہتر ہے اور یہی امید کی جانی چاہئے کہ انتخابات میں خواہ کوئی بھی فاتح ہو، وہ بوقت منعقد ہوں اور ملک میں جمہوری عمل کے تسلسل کا باعث بنیں۔

اس سیاسی منظر نامہ سے قطع نظر عمران خان اور تحریک انصاف کی طرف سے پہلے منشور کے گیارہ نکات اور اب 100 روز کا ایجنڈا سامنے لاکر ایک جمہوری جماعت ہونے کا ثبوت دیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک سیاسی نظام میں کوئی جمہوری پارٹی ووٹروں کو اپنے پروگرام اور ان اقدامات کے بارے میں مطلع کرتی ہے تاکہ وہ اس کا دوسری پارٹیوں کے پروگرام سے مقابلہ کرتے ہوئے یہ طے کرسکیں کہ ان کی خواہشات اور ضرورتوں کے مطابق کون سی جماعت بہتر طریقے سے حکومت چلانے کی اہل ہو گی۔ تاہم تحریک انصاف کی پہلے 100 دن کی ’وش لسٹ‘ یا ایجنڈے کا ذکر کرتے ہوئے جو نکات بیان کئے گئے ہیں ان کا پہلے سو دن کے دوران کئے جانے والے ٹھوس اقدامات سے کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا۔ اس پریس کانفرنس میں تحریک انصاف کے لیڈروں نے حسب سابق اپنا ایجنڈا پیش کرتے ہوئے یہ واضح کرنا ضروری سمجھا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت پانچ برس کے دوران کون کون سا کام کرنے میں ناکام رہی ہے اور اسے کن امور کو ترجیح دینی چاہئے تھی۔ لیکن یہ کہنے کے بعد گیارہ نکات کی طرح سو دن کا پرگرام بھی یہ بتانے سے قاصر رہا ہے کہ ان میں ایسے کون سے نکات ہیں جن کا حل کوئی بھی حکومت تین ماہ کی مدت میں نکال لے گی۔ 100 دن کا پروگرام بتاتے ہوئے عمران خان سرکاری اسکولوں کے 3 کروڑ اور مدرسوں کے 25 لاکھ طلبا کا ذکر کیا اورکہا کہ انہیں مناسب اور اعلیٰ تعلیم دینے کا اہتمام ہونا چاہئے۔ موجودہ اسمبلی آئندہ مالی سال کا بجٹ منظور کرچکی ہے اور تحریک انصاف ابھی تک کوئی ایسا فارمولا سامنے لانے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے جس سے یہ اندازہ ہو سکے کہ یہ پارٹی ملک کی موجودہ معاشی حالت میں تعلیم کے شعبہ کو اچانک ترجیح دینے کے لئے کثیر وسائل کہاں سے فراہم کرے گی۔

اسی طرح شاہ محمود قریشی نے جنوبی پنجاب کی محرومی کی کہانی سنائی تاہم یہ بتانے سے قاصر رہے کہ پہلے ایک سو دن میں ان کی پارٹی کس طرح اس خطے کے لوگوں کے مسائل کو چٹکی بجاتے حل کردے گی۔ اسی طرح بلوچستان میں ’باغی ‘ عناصر سے افہام و تفہیم کرکے صوبے میں امن قائم کرنے کی باتیں تو ہر حکومت کرتی رہی ہے اور ہر پارٹی اسے ماضی میں بھی اپنی ترجیح بتاتی رہی ہے۔ یہ دیرینہ مسئلہ الہ دین کے کس چراغ کے ذریعے پہلے 100 روز میں حل کرلیا جائے گا۔ اسد عمر نے نجی شعبہ میں 50 لاکھ گھر بنانے کا منصوبہ شروع کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ نجی شعبہ نئے گھر بنا کر بھی مفت تو تقسیم نہیں کرے گا اور نہ ہی بغیر منافع کے یہ گھر فروخت کئے جائیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان کے مشیر یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ اگر یہ منصوبہ سرکاری وسائل سے پایہ تکمیل تک پہنچے گا تو وہ وسائل کہاں سے آئیں گے اور وہ کون خوش نصیب ہوں گے جو مکان وصول کرنے والوں کی اولیّن فہرست میں شامل ہوں گے۔ اورسب سے بڑھ کر یہ کہ ایسے منصوبہ کو 100 دنوں میں کون سے فرشتے پوراکرسکیں گے۔

انتخابات سے پہلے پارٹی منشور پیش کرنا اور حکومت بننے کی صورت میں پہلے 100 دنوں کا پروگرام پیش کرنا بے حد اہم ہے لیکن اسے حقیقت پسندانہ بھی ہونا چاہئے ورنہ اس کی حیثیت انتخابی نعروں سے زیادہ نہیں ہو سکتی جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔حیرت انگیز طور پر تحریک انصاف 100 دن کے پروگرام میں بھی یہ بتانے سے قاصر رہی ہے کہ وہ حکومت سنبھالنے کے بعد امریکہ کے ساتھ بگڑے ہوئے تعلقات کو کس طرح بہتر کرنے کی کوشش کرے گی۔ ہمسایہ ملکوں کے ساتھ دگرگوں معاملات درست کرنے کے لئے کون سی حکمت عملی اختیار کی جائے گی۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق فلاحی معاشرہ تعمیر کرنے کی نوید دینے کے باوجود عمران خان یہ بتانے سے بھی قاصر رہے ہیں کہ وہ اسی دین کے نام پر انتہا پسندی اور قتل و غارتگری کی روک تھام کے لئے کون سے اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جو حکومت اپنے پہلے 100 دن میں ان اہم پہلوؤں پر کوئی حکمت عملی لانے کا ارادہ نہیں رکھتی ، وہ تبدیلی کی دعویدار نہیں ہو سکتی بلکہ حالات کو جیسے اور جس طرح کی بنیاد پر قبول کرنے کا اعلان کررہی ہے۔ یعنی جن شعبوں پر اسٹبلشمنٹ نے حق ملکیت کا اعلان کیا ہؤا ہے ، تحریک انصاف کی حکومت اسے تسلیم کرتے ہوئے ان میں ٹانگ اڑانے کی کوشش نہیں کرے گی۔ بہتر ہوتا کہ عوام کی سہولت کے لئے 100 دن کے پروگرام کا اعلان کرتے ہوئے یہ بات کھل کر کہہ دی جاتی تاکہ جو لوگ سول ملٹری تنازعہ کا حل یہی سمجھتے ہیں کہ منتخب وزیر اعظم اپنے اور پارلیمنٹ کا اختیار جتانے کی بجائے طے شدہ ایجنڈا کو قبول کرلے، ان کے ووٹ بھی تحریک انصاف کو مل جاتے۔

مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف اگرچہ کوئی واضح منشور لانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے لیکن نواز شریف نے پارلیمنٹ کو بالادست بنانے، ووٹ کو عزت دینے اور ستر برس کے دوران بار بار وزیر اعظموں کو معزول کرنے کے طریقہ کار کے خلاف بات کرکے اپنا لائحہ عمل واضح کردیا ہے۔ ایسا جمہوریت پسند ووٹ جو حکومت کے معاملات میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت کو برا سمجھتا ہے خواہ نواز شریف کا حامی ہو یا مخالف لیکن وہ ان نعروں کو ووٹ ضرور دے گا۔ ایسے میں مسلم لیگ (ن) کو منشور دینے اور پہلے 100 دن کا پروگرام سامنے لانے کی کیا ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ نے گزشتہ جولائی میں نواز شریف کو نااہل قرار دے کر انہیں یہ ناقابل بیان موقع عطا کیا ہے کہ اب انہیں 5 سال کے دوران مسلم لیگ (ن) کی حکومت  کی کارکردگی کا حساب نہیں دینا بلکہ صرف یہ کہنا ہے کہ ’مجھے کیوں نکالا‘۔ یہ جواب اب دوسرے دیں ایک منتخب وزیر اعظم کو اپنی مدت پوری کرکے اپنی کارکردگی پر عوام کا مینڈیٹ لینے کا موقع کیوں نہیں دیا گیا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali