میری ماں کا وعدہ، میری بیٹی اور پیرس کا خواب


رانجھے نے اس سماج سے بغاوت کی، جس میں اس کے فن (بانسری) کی قدر نہ ہوئی۔ راہ میں دریا تھا، اسے پار اُترنا تھا، جو اس کی منزل مقصود تھی؛ ملاح کو بانسری سنا کر دریا پار کرنے کا سودا کیا۔ تو بچو! کشتی نہیں؛ اُس کا فن ہی (بانسری) اسے پار لے گیا۔ اُس پار جہاں اس کا نصب العین (ہیر) تھا۔ جب انسان اپنے ’مقصود‘ تک پہنچ جاتا ہے، تو ’امتحان‘ اس کے منتظر ہوتے ہیں۔ ’کیدو‘ مثلِ شیطان ہے، جو ’محبوب‘ کے مل جانے پر خوش نہیں۔ یہ تو ایک تفہیم ہوئی؛ کہانیوں کی تفہیم کئی زاویوں سے کی جاسکتی ہے، اب تم سوچو، کہ تم اس کہانی کو اور کس طرح دیکھتے ہو“۔

میں بڑے بیٹے اور بیٹی کو اپنے پاس بٹھا کر انھیں قائل کر رہا تھا، کہ انگریزی کہانیوں کی کتابیں ضرور پڑھیں، لیکن پاکستانی ادب کو پڑھنا بھی مت چھوڑیں۔ میرے دونوں بڑے بچے کم سنی سے غیر نصابی کتب میں دل چسپی لیتے آئے ہیں۔ انھیں اردو میں لکھی کتب آخر کب تک متاثر کرتیں، جب وہ انگریزی میڈیم اسکول میں پڑھتے ہوں۔ ایک نہ ایک دن یہ تو ہونا ہی تھا، کہ انھیں انگریزی ادب متاثر کرے۔

بچے ہیں، ظاہر ہے ابھی وہ کہانیوں کی متعدد تفسیریں نہیں کرسکتے، لیکن میرا مدعا بس اتنا تھا، ان میں یہ شعور پیدا ہو، کہ ایک ہی واقعے کو کئی زاویوں سے دیکھا جاسکتا ہے۔

”دیکھو! اگر تم اس دھرتی میں بسنا چاہتے ہو، تو اس دھرتی سے جڑے کرداروں کو ضرور پڑھنا؛ سمجھنا۔ ورنہ تم یہاں اجنبی ہو کے رہ جاو گے“۔
”لیکن ابو مجھے پیرس جانا ہے؛ میں وہاں جا کر پڑھوں گی“۔ میری بیٹی میرا ہی رُوپ ہے۔

میں اپنے بچپن میں بعینہ ایسا ہی خواب دیکھتا تھا، کہ مجھے پیرس جانا ہے، وہاں جا کے آرٹ کی تعلیم حاصل کرنا ہے۔ میں نے کئی بار تصور ہی تصور میں ایفل ٹاور کے نیچے بیٹھ کر، وہاں آتے جاتے سیاحوں کو پینٹ کیا ہے۔ میری ماں سرکاری اسکول میں ٹیچر تھی؛ اس نے بھی یہی کہا تھا، جو میں نے اپنی بیٹی سے کہا۔
”ہاں! ضرور جانا“۔
ماں اپنی معمولی تنخواہ سے بچت کر کے مجھے پیرس کیا بھیجتی، شاید بھیج بھی دیتی، لیکن پیرس میری منزل مقصود نہیں تھی۔ مجھے کسی اور سمت جانا تھا۔ مجھے معلوم نہیں جب میری بیٹی کے پیرس جانے کا وقت آئے گا، اُس وقت میں اسے اسپورٹ کرسکوں گا یا نہیں۔ میں اس کا دل نہیں توڑنا چاہتا؛ ہوسکتا ہے میں اُس کا ’یقین‘ ہوں۔

کچھ ہی دن پہلے میں بچوں کو ”سوہنی منہیوال“ کی داستان سنانے بیٹھ گیا؛ اس دھرتی سے جڑے کردار۔ سامنے بچے ہوں، تو آپ کسی فلسفی کا رُوپ دھار کے، نہایت اعتماد سے اپنی گھڑی ہوئی تفہیم بیان کرسکتے ہیں، ”تفہیم“ درست ہو یا غلط اس سے بحث نہیں۔

”تھل، دریا، صحرا؛ لوک داستانوں میں یہ ’استعارہ‘ ہیں۔ ہمارا ہیرو، جو کہ باغی ہے؛ وہ ان کٹھنائیوں کو پار کرتا ہے۔ اُس پار ہی ’منزل‘ ہے۔ ’یقین‘ ہو، کہ منزل اس پار ہے، تو پار سلامت اُترتے ہیں۔ ایمان ڈول جائے، ایسے میں واپس ہونے والوں کا انجام موت ہے۔ تو سوہنی کا گھڑا کیا ہے، بیٹا“؟
”یقین“! میری بیٹی نے جھٹ سے جواب دیا۔ میں مسرور ہوا، گویا میری مراد بر آئی ہو۔
”ہاں! یقین! یقین پختہ نہ ہو، تو عاشق ڈوب جاتے ہیں۔ پار نہیں اُترتے“۔

میری یہ بیٹی، میرا ’یقین‘ ہے۔ بیٹیاں تو اور بھی ہیں؛ سبھی پیاری ہیں، لیکن یہ بڑی ہے، تو پہلی محبت کی سی چہیتی ہے۔ عجب نہیں آپ کیا کیا سمجھیں لیکن میں پھر بھی کَہ کے رہوں گا۔ میری خواہش ہے کہ میری بیٹی ’ہیر‘ بنے، میری بیٹی ’سوہنی‘ ہو، ’سسی‘ ہو، ’ماروی‘ ہو لیکن پار اُتر جائے؛ منج دھار نہ ڈوبے۔

بیوی نے کہا، ”آپ اسے سمجھاتے کیوں نہیں؛ یہ ہر وقت ویسٹرن لباس پہنے رکھتی ہے۔ بڑی ہوگئی ہے اب یہ۔ اسے شلوار قمیص پہننا چاہیے“۔
میں کچھ کہتا، میری بیٹی نے پہلے ہی منہ بسور لیا۔ ”اماں مجھے نہیں اچھا لگتا، آپ کو پتا ہے“۔
وہ جانتی ہے، کہ جو اس نے کہ دیا، اب اس کی اسپورٹ ابو سے ضرور ملے گی۔ کیوں کہ میں اس کا ’یقین‘ جو ہوا۔ ابو کا ایمان ہے کہ یقین پختہ نہ ہو، تو عاشق منج دھار ڈوب جاتے ہیں۔

یہ تو اب کی بات ہے، اب سے دو تین سال پہلے، عید کے موقع پر اس کی دادی نے بڑے چاو سے شلوار قمیص سی کردیا۔ ماں نے زبردستی پہنا تو دیا، لیکن جب تک شلوار قمیص پہنے رکھا، وہ سسکتی رہی کہ مجھے اس کا گوٹا کناری چبھتے ہیں۔ حال آں کہ ڈِزائن ایسا تھا، کہ گوٹا کناری چبھنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اپنی بیٹی کو میں ہی جانتا ہوں؛ میری ہی طرح ضدی ہے۔ جس کام سے روکو، وہ ضرور کرنا ہے۔ جینز کی سائنس بھی کیا قیامت ہے۔ میں نے کَہ دیا، ”جاو اپنی مرضی کا لباس پہن لو“۔ تب اس کی عید ہوئی۔

”دیکھیں ناں ابو! میں اماں کے ساتھ باہر جاتی ہوں، تو اماں ہر وقت کہتی رہتی ہیں، وہ دیکھو؛ اُس لڑکی کو دیکھو تمھاری عمر کی ہے، اس نے شلوار قمیص پہنا ہے؛ مجھے نہیں پہننا تو پھر کیوں“؟

اُس کی ماں کچھ جواب دیتی، میں نے روک دیا؛ بیٹی سے مخاطب ہوا۔ ”جو تمھیں پسند ہے، تم وہی پہنو؛ میری طرف سے کوئی پابندی نہیں ہے؛ لیکن“۔۔۔
”ابو“!۔۔
وہ جان گئی کہ میں کیا کہنے والا ہوں؛ اس نے احتجاج کیا، پر میں نے اپنی بات مکمل کرنے کی اجازت چاہی۔
”ایک مثل ہے، ’جیسا دیس، ویسا بھیس‘؛ ہم جہاں رہتے ہیں، اس ماحول سے یک سر جدا ہو کے نہیں رہ سکتے۔ کچھ اصول ہمیں سماج کی بھی ماننا پڑتے ہیں، لیکن جہاں لگے کہ ہماری زندگی کا کوئی بڑا فیصلہ ہے، تو ہم ان اصولوں سے بغاوت کرسکتے ہیں۔ اور تمھاری ماں کا مطالبہ کچھ ایسا نہیں کہ تمھاری راہ کھوٹی ہوتی ہے۔ پھر بھی فیصلہ تمھی کو کرنا ہے۔ چلو! یونھی سہی، ماں کی خوشی کے لیے کچھ اس کی بھی مان لو“۔
”ٹھیک ہے، ابو! پر میں نے اس ملک میں نہیں رہنا۔ میں باہر جاوں گی پڑھنے کے لیے“۔
”اور پھر“؟
”پھر میں وہیں پہ رہوں گی؛ وہیں جاب کروں گی“۔
”ٹھیک ہے جان من! تم ایسا ہی کرنا۔ جب تم اپنے من بھاتے دیس چلی جاو، تو ویسا ہی بھیس اپنا لینا“۔
”ابو! پرامس“؟
بیٹیوں نے جب جانا ہی ہے، تو ان کا من چاہا دیس کیوں نہ ہو؛ جہاں وہ سہولت سے رہ سکیں۔
”ہاں بیٹا! پرامس! میں ہی تو تمھارا گھڑا ہوں“۔
میرا بیٹا ایک طرف کھڑا مسکرا رہا تھا۔ اُس گدھے کو کیا معلوم بیٹیاں کیا ہوتی ہیں۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran