عمر شریف کا’ قاتل ‘کون ہے؟ (مکمل کالم)


ایک شخص ماہر نفسیات کے پاس گیا اور اسے اپنی بیماری کا احوال بتاتے ہوئے کہنے لگا کہ ڈاکٹر صاحب میں بہت اداس رہتا ہوں، اکثر اوقات مجھ پر مایوسی کے دورے پڑتے ہیں اور میں شدید ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہوں، بتائیے میں کیا کروں۔ ڈاکٹر نے اُس کی بات غور سے سنی اور کہا کہ شہر کے مرکزی تفریحی تھیٹر میں ایک کامیڈین ہر ہفتے کی شب اپنا پروگرام پیش کرتا ہے، اُس کی باتیں بہت دلچسپ ہوتی ہیں اور وہ اپنے لطیفوں سے حاضرین کو ہنسا ہنسا کر پیٹ میں بل ڈال دیتا ہے، میرا مشور ہ ہے کہ تم مہینے میں ایک آدھ بار اُس کا شو دیکھنے چلے جایا کرو، اِس سے تمہیں کافی افاقہ ہوگا۔ مریض نے جب ڈاکٹر کی بات سنی تو دھیرے سے مسکرا کر بولا ’’ڈاکٹر صاحب،وہ کامیڈین میں ہی ہوں۔‘‘

عمر شریف کی بیماری کی حالت کی تصویر جب سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو ہر پاکستانی کی طرح مجھے بھی بے حد تکلیف ہوئی، دل میں سوچا کہ یہ تو وہ شخص ہے جو لاکھوں لوگوں کو ہنسایا کرتا تھا، اسے یکدم کیا ہوا! پھر پتا چلاکہ گزشتہ برس فروری میں عمر شریف پر ایک قیامت گزر ی تھی جس کے بعد وہ ٹوٹ کر رہ گئے تھے۔ اُن کی بیٹی کو گردے کا مرض لاحق تھا، اُس کے گُردے کی پیوند کاری ہونا تھی، جس ڈاکٹر نے عمر شریف کی بیٹی کا یہ آپریشن کیا اُس کا نام فواد ممتاز تھا جو لاہور جنرل اسپتال میں سرجن تھا۔عمر شریف اُس وقت تین ماہ کے لیے امریکہ گئے ہوئے تھے اور لاہور میں اُن کا بیٹا اپنی بہن کے آپریشن کے معاملات دیکھ رہا تھا۔ بیٹے کو علم نہیں تھا کہ جس ڈاکٹر سے وہ آپریشن کروا رہے ہیں وہ 2017 میں ایک خاتون کے گُردے کی غیر قانونی پیوند کاری کے الزام میں ایف آئی کے ہاتھوں گرفتار ہو چکا ہے، اُس آپریشن میں خاتون کی موت واقع ہو گئی تھی اور اِس الزام میں پنجاب کی ینگ ڈاکٹر تنظیم کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر التمش کھرل کو بھی دو ساتھیوں سمیت گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کے بعد نام نہاد ڈاکٹر فواد کی ضمانت مسترد ہوئی مگر بعد ازاں ضمانت منظور بھی ہو گئی اور وہ نہ صرف رہا ہوا بلکہ جنرل اسپتال میں ڈیوٹی بھی کرتا رہا اور پنجاب کے مختلف شہروں میں اس کے خلاف پرچے بھی درج ہوتے رہے۔ عمر شریف کے خاندان سے اُس نے گردے کی پیوند کاری کے چونتیس لاکھ روپے وصول کیے اور آزاد کشمیر کے کسی نا معلوم مقام پر آپریشن کیا جو ناکام ہو گیا۔ عمر شریف کے بیٹے کی درخواست پر ایف آئی اے نے ڈاکٹر فواد ممتاز کے گھرپر چھاپہ مارا مگر اُس کی گرفتاری نہ ہو سکی۔اِس واقعے نے عمر شریف کی دنیا اجاڑ دی، انہوں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ اُن کے اپنے ملک میں اُن کی بیٹی کی سرجری ایک جرائم پیشہ ڈاکٹر کرے گا جس کی وجہ سے بیٹی کی جان چلی جائے گی۔عمر شریف کی بیٹی کا ’قاتل ‘ آج بھی زندہ ہے اور شاید تا حال گرفتار نہیں ہو سکا، عین ممکن ہے کہ اب بھی وہ جعلی آپریشن کر رہا ہوا ور معصوم لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہا ہو۔یہ قاتل اگر گرفتار ہو بھی گیا تو اسے سزا نہیں ہو پائے گی کیونکہ ایسے جرائم پیشہ ڈاکٹروں کو پکڑنے کے لیے موجود ہ قوانین ناکافی ہیں۔ اگر کوئی شخص جعلی ڈاکٹر کے خلاف شکایت درج کرواتا ہے تو پنجاب کی حد تک یہ قانون ہے کہ ہیلتھ کئیر کمیشن اس پر جرمانہ عائد کر سکتا ہے اور یہ جرمانہ بھی قانونی موشگافیوں کے مراحل سے گزرکر عائد کیا جاتا ہے۔ کمیشن اُس ڈاکٹر کا کلینک بھی سر بمہر کر سکتا ہے مگر جرائم پیشہ ڈاکٹر اس کی پروا نہیں کرتے اور وہ کرائے کی دکان چھوڑ کر کہیں اور پریکٹس شروع کر دیتے ہیں۔ میرے علم میں ایسے کئی واقعات ہیں جن میں ایسے ڈاکٹروں نے لوگوں کی زندگیوں کو داؤ پر لگایا اور ابھی تک کھلے عام پھر رہے ہیں، قانون اُن کا کچھ نہیں بگاڑ پایا۔

ہم نے عمر شریف کی موت کا جو ماتم کیا ہے وہ اپنی جگہ مگر ایسے ماتم کا کیا فائدہ ؟ وفاق،پنجاب اور سندھ کی حکومتیں جو عمر شریف کی موت کے بعد سے تعزیتی پیغامات جاری کر رہی ہیں اُن کا اب کیا کسی نے اچار ڈالنا ہے، اُن کے ذمے جو کام تھا وہ تو ہو نہیں سکا، اب تعزیتی ٹویٹس کرکے کیا قومی فریضہ نبھا رہے ہیں ! اگر کسی کو واقعی عمر شریف کی وفات کا دکھ ہے تو اس کے لیے کم سے کم کرنے کا کام یہ ہے کہ اُس جرائم پیشہ ڈاکٹر کو گرفتار کرے جس نے عمر شریف کی بیٹی کا آپریشن کیا تھا اور اسے قانون کے مطابق سزا دلوائے۔ اگر یہ بھی ممکن نہیں تو پورے ملک میں ایسے جرائم پیشہ ڈاکٹروں کی فہرست بنا کر اسے ویب سائٹ پر مع اُن کی تصاویرکے ایسے اپ لوڈ کر دیا جائے جیسے سنگین جرائم میں مطلوب افراد کی تصاویر کو مشتہر کیا جاتاہے، اِس سے یہ ہوگا کہ کسی ڈاکٹر کے جھانسے میں آنے سے پہلے لوگ اِس ویب سائٹ پر اُس کی پڑتال کرکے معلوم کر سکیں گے کہ کہیں یہ جرائم پیشہ یا جعلی تو نہیں۔ اور اگر ہم یہ بھی نہیں کر سکتے تو پھر ہمیں عمر شریف کی موت کا غم منانے کا کوئی حق نہیں۔

اب کچھ بات عمر شریف کے فن کی ہوجائے۔ عمر شریف کراچی کے کامیڈین تھے، اُن سے پہلے جس اداکار نے کراچی میں مزاح میں اپنا نام بنایا وہ معین اختر تھے۔ شاید کم لوگوں کے علم میں یہ بات ہو کہ ان دونوں اداکاروں کی مقبولیت میں پنجاب کا بڑا کردار تھا، اِن دونوں نے پنجاب کے مزاح سے استفادہ کیا، پنجابیوں سے ملے، معین اختر نے تو پنجابی بھی سیکھی، پنجاب کے ڈرامے دیکھے اور یہ دونوں اداکار خاص اس کام کے لیے پنجاب آتے جاتے تھے۔ عمر شریف نے تو شمع سنیما کی جگہ لاہور میں اپنا تھیٹر بھی بنایا جہاں انہوں نے سہیل احمد کے ساتھ ایک کھیل کیا جو میں نے اُس وقت تھیٹر میں جا کر دیکھا تھا۔معین اختر اور عمر شریف کے مزاح میں وہی فرق ہے جو ایک بی اے پاس اور میٹر ک کے طالب علم میں ہوتاہے۔ معین اختر کا مزاح پڑھے لکھے اور بالائی طبقے کا مزاح تھا جبکہ عمر شریف کا مزاح نچلے طبقے کاتھا، معین اختر نے اشرفیہ میں بہت جلد اپنی جگہ بنا لی تھی اور کافی کلچرڈ چیزیں او ر گفتگو سیکھ لی تھی جبکہ عمر شریف یہ کام نہیں کر سکے۔ شروع شروع میں تو اُن کا تلفظ بھی درست نہیں تھا، وہ ’یہاں ‘ کو ’نہاں‘ کہتے تھے، یہ تلفظ معین اختر نے ٹھیک کروایا۔اس کے علاوہ بھی معین اختر نے عمر شریف کی تربیت کی جو اُن کے اعلی ٰ ظرف ہونے کا ثبوت ہے اور جواباً یہ عمر شریف کی بڑائی ہے کہ وہ برملا اس کا اعتراف کرتے تھے ورنہ اپنے یہاں تو جس شخص کو شہرت ملتی ہے وہ سب سے پہلے اپنے محسنوں کا پتہ صاف کرتا ہے۔عمر شریف کی اصل خوبی اُن کی مکالموں کی ادائیگی تھی، اُن کے بولنے کا انداز ایسا بے ساختہ تھا کہ جملے میں مزاح نہ بھی ہوتا تو خواہ مخواہ ہنسی آ جاتی تھی۔وہ پنجاب کے مزاحیہ اداکاروں کی طرح فی البدیہہ جگت لگانے کے ماہر تو نہیں تھے مگر اُن کی شخصیت ایسی تھی کہ جہاں جاتے لوگوں کے چہروں پر خود بخود مسکراہٹ آ جاتی۔عمر شریف سے پہلے کراچی کا مزاحیہ تھیٹر بالکل بے جان اور پھیکا تھا، عمر شریف کے ڈراموں نے گویا اس میں جان ڈال دی۔ شروع شروع میں وہ محلوں میں کھیل کیا کرتے تھے جہاں سے آہستہ آہستہ انہیں شہرت ملی اور پھر’ بکرا قسطوں پر‘ اور’ بڈھا گھر پہ ہے‘ جیسے تماشوں نے اُن کی شہرت کو چار چاند لگا دئیے جس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

ہم چونکہ دعائیں مانگنے اور ماتم کرنے والی قوم ہیں، عملی کام پر یقین نہیں رکھتے، اِس لیے میری دعا ہے کہ حکومت عمر شریف کے ’قاتل‘ کو فوری گرفتار کرے تاکہ اُن کی روح کو قرار آ سکے،یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ اُن کا قاتل وہی ڈاکٹر ہے جو اُن کی بیٹی کی موت کا ذمہ دار ہے۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 487 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments