جب ’کھردرے لفظوں‘ کا مرحلہ آن پہنچے


چار پانچ برس کا بچہ، اپنے یہاں اس قدر ذخیرہ الفاظ ڈویلیپ کرچکا ہوتا ہے، کہ مطلب کی ہر بات کا ابلاغ، مختصر جملوں میں، پوری کامیابی سے کرسکے؛ لیکن اب بات یہاں تک محدود نہیں رہتی۔ وہ جان لیتا ہے کہ اظہار ”باہر جانا“، ”آئش کریم دے دو“، یا ”پہلا کلمہ طیب، طیب معنے پاک“  کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے؛ جہاں پہلے وہ دو لفظی اظہار میں اصرار کا تاثر بھرنے کو محض اپنی آواز بلند کر لیتا اور بعض اوقات چیخ پکار تک اتر آتا تھا، اب گردوپیش سے اُسے اپنی بات منوانے کو کچھ مزید ‘مواد’ بھی میسر آ جاتا ہے۔ وہ دوسرے بچوں سے انٹرایکشن کرتے بچے یا سکول گوئنگ بچے ایسا ”مواد“ برق رفتاری سے اپنے اندر جذب کرلیتے اور حسبِ ضرورت ایپلائے کرنا بھی شروع کردیتے ہیں۔

اِس مواد کو انگریزی زبان میں  swear words کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ یعنی وہ vulgar یا offensive الفاظ جو غصے کا اظہار کرنے میں مدد گار ہوں۔

کبھی گھر آئے مہمانانِ گرامی کے سامنے یا اُن کے بچوں سے الجھ پڑنے پر جب آپ کا بچہ اِس دھماکا خیز مواد کو explode کرتا ہے، تو آپ کے پیروں تلے  سے زمین سرک جاتی ہے، آپ پانی پانی ہو جاتے ہیں۔

جی نہیں، اس کا حل تھپڑ مار دینا، گرج دار آواز میں چیخ  اٹھنا ہر گز نہیں، اور:

”آیندہ ایسا لفظ منہ سے نکالا تو زبان کھینچ لوں گی/گا !“

ایسی دھمکیوں سے مہمان صاحب کو اپنے اخلاقی، اور خاندانی ہونے کا ثبوت فراہم نہ کیجیے۔ یہ ایک قطعی غلط رد عمل ہے۔

1: اچھا پہلے تو درست طریقہ جان لیں۔ اس پیچھے چھپی حکمت یا فلسفے پر چار سطریں آخر میں۔ ایسی بات رپورٹ ہوتے ہی، یا خود مشاہدے میں آتے ہی آپ اپنے چہرے پر سخت سنجیدہ ہو جانے کا تاثر سجالیں۔
2: خاموش ہو جائیں۔ بچہ مزید کوئی بات کرے، جواب نہ دیں۔ اسے لگے کہ آپ سخت ناراض ہو گئے ہیں۔

کچھ دیر بعد:
”آپ زرا اس کمرے میں میرے پاس آئیں۔۔۔ جلدی!“

اِس غیر مشفقانہ ٹون میں، یوں الگ لے جانا اور اپنے رُو برو مجرموں کے سے انداز میں اس کی ”پیشی“ لگوا دینے ہی میں بچے کے لیے جو شاک ہے، وہ از خود ایک موثر  پیغام ہے۔ تہذیب و اخلاق کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جانے پر دکھ اور ناراضی کا پیغام۔

”یہ کیا لفظ بولا تھا آپ نے؟“

”کہاں سے سیکھا؟“

”آپ جانتے ہیں یہ کتنی بری بات ہے؟“

 بالفرض آپ کا بچہ زرا ڈھیٹ یا غیر معمولی بولڈ، اور کیئر لیس ہے، تو یہاں تک کہہ جائیں:

”آیندہ مجھ سے بات نہ کرنا۔ نہ میں آپ کو باہر لے کر جاؤں گا/گی، نہ یہ کروں گا، نہ وہ ۔۔۔“ وغیرہ۔

اخلاقی مار دیں۔ اِس طور اسے احساس دلائیں کہ اس لفظ کا استعمال ہر گز ناقابلِ قبول ہے۔ یہ ایک taboo ہے جس کی گنجایش نہیں۔

یاد رہے، تھپڑ، مار کٹائی یعنی جسمانی سزا آخری حد ہے، یا آخری کارڈ۔ اس کارڈ کو سنبھال رکھیں۔ اس کا عملی استعمال آپ خود پر تقریباً حرام کرلیں (موت سے زیادہ خوفناک شے موت کا ڈر ہے – واصف علی واصف)۔ ایسے متعدد والدین دیکھے جو خلافِ مزاج وقوِع پر خود اپنا کنٹرول کھو دیتے ہیں۔ تربیت کرنے کا یہ ایک مضحکہ خیز انداز ہے۔ یعنی جب بچے کو یہ سکھانا ہے کہ explosive سیچوایشن کو رسپانڈ کرتے میں ’ہاؤ ٹو کِیپ یور کول‘، آپ الٹا یہ سکھا رہے ہیں کہ ’ہاؤ ٹو لوز یور کول اینڈ بِی پرفیکٹلی وائلڈ‘۔

آخری کارڈ کے استعمال کی نوبت  کا نہ آنا ہی آپ کی اصل کامیابی ہے۔ ورنہ خود آپ کی اپنی ناکامی۔
کیوں؟

مار کٹائی کے دو نتیجے بر آمد ہوئے ہیں۔

اوّل: بچے  کا فائبر اگر غیر معمولی  مضبوط ہے تو وہ ڈھیٹ ہو جائے گا۔ اس کی شرم اتر جائے گی۔ وہ مزید بے پروا ہو جائے گا۔

دوم: بچے کا فائبر زرا میڈیم سطح کا ہے تو وہ دب جائے گا۔ خود اعتمادی کھو دے گا۔ اس کی نظر میں اس کا ہر فیصلہ مشکوک۔ جائز اور درست بات کرتے میں بھی وہ آپ کی طرف دیکھے گا۔ اسے اپنی سوچوں پر بھی اعتماد نہ ہو گا۔

ایسے بچوں کو جب ہم کلاس روم سیچوایشن میں ریڈنگ کرنے یا کسی موضوع پر اظہارِ خیال کرنے کو کہہ دیں تو وہ سخت نروس ہو جاتے ہیں۔ ان کی آواز میں، ان کی بدن بولی میں ارتعاش کو بالکل واضح دیکھا جا سکتا ہے۔

آخری بات: بچے کی زبان سے گالی گلوچ کا اخراج  اس کی گرومنگ میں ایک وقتی فیز ہے۔ یہ فیز دو ماہ سے چار ماہ تک طویل ہو سکتا ہے۔ نرمی سے، یا تھوڑی بہت گرمی سے سمجھاتے جائیں کہ درست رویہ کیا ہے۔ بار بار سمجھائیں، صرف مناسب لفظوں میں۔ ان لفظوں  کی تکرار جاری رکھیں۔ نفسیاتی حربے آزمائیں، اور خود اپنے آپ پر قابو رکھیں۔ بچہ وہ عادت کچھ ہفتوں میں چھوڑ جائے گا۔ ڈنڈا لے کر پیچھے نہ پڑ جائیں۔ نیز بچے کے مسائل سننا، اور اسمارٹ حل پیش کرنا بھی ایک عمدہ حل ہے۔ وجوہ تلاش کریں، اسے غصہ کیوں آیا۔ اگریشن کو روکنے  کے لیے اگریشن کا استعمال، از خود حماقت ہے۔ نتیجہ صفر، بلکہ نیگیٹو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).