کچھ تذکرہ پی آئی اے کی دعوت کا


پاکستان انٹرنیشنل ایرلائنز نے برطانوی نو بیاہتا شہزادی اور شہزادے کو ملک کے شمالی علاقہ جات کے دورے کی دعوت دی ہے۔ اس دعوت کا بہت غلغلہ ہوا۔ یار لوگوں نے پی آئی اے کی ’ٹویٹی‘ دعوت کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ سر آنکھوں پر رکھا۔ خوش ہو گئے اور کیوں نہ ہوں! سیاحت کا سیزن چل رہا ہے؛ گلگت بلتستان اور چترال سمیت پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے نظارے دیدنی ہیں۔

پی آئی اے نے دعوت تو دی، لیکن پی آئی اے کی پرواز پر بھروسا کرنا خود کو ذہنی اذیت میں ڈالنے، یا پھر خودکشی کرنے کے مترادف ہے۔

تصور کیجیے، کہ پرنس ہیری اپنے دُلھن سمیت پاکستان پہنچ جاتے ہیں اور پی آئی اے کے طیارے میں بیٹھ کر ہنزہ، سکردو یا چترال جانا چاہتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پرواز اُڑے گی نہیں؛ کیوں کہ پائلٹ کا موڈ خراب ہوگا۔ رات کو بیوی نے ڈانٹ شانٹ کر پائلٹ کے پر کاٹ دیے ہوں گے؛ اس لیے وہ اڑنے یا اڑانے کے قابل نہ رہا ہوگا۔

بالفرض، پائلٹ کو موڈ ٹھیک ہے بھی تو اسلام آباد میں بارش ہو سکتی ہے۔ یعنی طیارہ زلفِ برہم کی طرح بارش میں بھیگ کر آنکھوں کو تراوٹ تو بخشے گا، لیکن اڑ نہیں پائے گا۔

فرض کیجیے، کہ طیارہ اسلام آباد سے اُڑتا ہے۔ راستے میں نانگا پربت آئے گا۔ پی آئی اے کے طیاروں کے لیے نانگا پربت سدرۃ المنتہی کا مقام رکھتا ہے؛ یعنی یہاں آکر بادلوں میں گھرنے کے بعد ان کے پر جل جاتے ہیں۔ اگر نانگا پربت کے اڑوس پڑوس میں آوارہ بادلوں کو کوئی جھونکا ہوگا، تو ان طیاروں نے اڑنے سے انکار کرنا ہے۔

یہ سب باتیں تجربے کی بنیاد پر ہیں۔ لیکن یہ تجربہ ’عوام الخناس‘، معذرت، عام الناس کا ہے۔ عین ممکن ہے کہ شہزادوں اور شہزادیوں کے لیے کسی اچھے اور طیارے کا بندوبست کیا جائے گا۔ یا شاید بادل ہی شاہ کی تعظیم میں نانگا پربت کی چوٹی سے غبار بن کر دور دفعان ہو جائیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).